کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 357
10- اسی طرح دنیا و دین ہر دو کی بھلائی کے سوال پر مشتمل ایک دعا سورۃ البقرۃ [آیت: ۲۰۱] میں ہے: ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائیاں عطا فرما اور ہمیں نارِ جہنم سے بچا۔‘‘ قرآنِ کریم میں ایسی ہی بکثرت دعائیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے نصف صد کے قریب دعائیں ہم نے اپنی مطبوعہ کتاب ’’سوئے حرم‘‘ میں اور نصف صد سے بھی زیادہ دعائیں ’’مسنون ذکر الٰہی‘‘کے ضمیمہ طبع دوم میں جمع کر دی ہیں، لہٰذا ان سب کو یہاں ذکر کرنے سے ہم صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ ایک اہم وضاحت: یہاں ایک اہم بات کی وضاحت کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر دعا کرنا بالاتفاق مشروع ہی۔ وہ دعائیں جو اس مقام کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ان کا مانگنا سب سے افضل ہے اور وہ دعائیں جو اس مقام کے ساتھ تو خاص نہیں لیکن قرآنِ کریم میں اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی مقام و غرض کے لیے ثابت ہیں، ان کا مانگنا بھی جائز ہے۔ غیر ماثور دعاؤں کے مقابلے میں ماثور دعاؤں کا مانگنا ہی افضل ہے، اگرچہ اکثر ائمہ اور جمہور اہلِ علم کے نزدیک اپنی طلب و حاجت کے مطابق غیر ماثور دعا کر لینا بھی جائز ہے۔ اس کی دلیل بخاری و مسلم کی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جس میں ہے: (( ۔۔۔ ثُمَّ لْیَتَخَیَّرْ مِنْ الدُّعَائِ أَعْجَبَہٗ اِلَیْہِ فَیَدْعُو [بِمَا بَدَا لَہٗ،
[1] صححہ الحاکم و وافقہ الذہبي ولم یعقبہما الألباني في الصلاۃ (ص: ۱۱۰) [2] صحیح النسائي (۱/ ۲۸۱) السنۃ (۳۷۰) بتحقیق الألباني وصححہ الألباني في الصفۃ (ص: ۱۱۰) أیضًا۔