کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 344
تب انگلی اٹھانا، جیسا کہ حنابلہ کا مسلک ہے۔ 3- پورے قعدہ کے دوران وقفے وقفے سے مسلسل انگلی کو اٹھاتے گراتے رہنا، جیسا کہ مالکیہ کا مسلک ہے۔ اولاً: آغاز ہی سے اشارہ شروع کر دینے کے دلائل: ان میں سے پہلی بات کہ آغازِ قعدہ و تشہد ہی سے انگلی سے اشارہ شروع کر دینا چاہیے، اس پر کئی احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے، جن میں سے چھے احادیث ہم ’’انگلی اٹھانے کی مشروعیت‘‘ کے تحت ذکر کر چکے ہیں۔ اب رہا معاملہ مالکیہ کے مسلک کے جزوِ ثانی یعنی سلام پھیرنے تک انگلی سے اشارہ جاری رکھنے کے دلائل کا، تو اس سلسلے میں بھی ان کا استدلال بعض صحیح احادیث سے ہے۔ جن میں سے ’’انگلی اٹھانے کی مشروعیت‘‘ کے زیرِ عنوان گزری۔ چھے احادیث میں سے تین وہ بھی ہیں جن میں (( یَدْعُوْ بِھَا ))، (( فَدَعَا بِھَا )) اور (( یُحَرِّکُھَا یَدْعُوْ بِھَا )) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ ان تینوں حدیثوں کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قعدہ کے آخر تک یعنی سلام پھیرنے تک انگلی سے اشارہ کرتے رہتے تھے اور اشارے کی کیفیت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حرکت دیتے، یعنی اٹھاتے اور گراتے تھے۔[1] ان تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ اشارے کو ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ خاص کرنے والی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، لہٰذا احادیث کے عموم کے پیشِ نظر اشارہ آغازِ تشہّد ہی سے شروع کر دینا چاہیے اور ’’یُحَرِّکُہَا‘‘ کے لفظ والی صحیح حدیث کے پیشِ نظر سلام پھیرنے تک انگشتِ شہادت کو حرکت دیتے یعنی اٹھاتے اور گراتے رہنا چاہیے۔
[1] صحیح مسلم (۳/ ۵/ ۸۰) ابن خزیمۃ (۱/ ۳۵۶) سنن البیھقي (۲/ ۱۳۲) صفۃ الصلاۃ (ص: ۹۳) [2] ابن خزیمۃ (۱/ ۳۵۵) سنن البیھقي (۲/ ۱۳۲) الفتح الرباني (۴/ ۱۵) أبي داود مع العون (۳/ ۲۸۲) سنن النسائي (۱/ ۱/ ۱۴۹) أبي عوانۃ (۲/ ۲۲۶) مشکاۃ مع المرعاۃ (۲/ ۴۸۰)