کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 34
ہے۔ کسی وقت آپ مسنون نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قواعد و ضوابط کو پیش نظر رکھ کر نمازیوں کا سروے کر کے دیکھ لیں، اکیلے نمازی بھی اس سروے میں شامل کر لیں اور باجماعت بھی، طہارت و تکبیرِ اولیٰ سے لے کر صفوں کی درستی اور سلام پھیرنے تک آپ کو نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور نمازِ مسلم میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا اور پھر چار و ناچار آپ کو بھی علامہ اقبال کے ان عبقری خیالات کی داد دینا پڑے گی، جنھیں وہ یوں کہہ گئے ہیں : ؎
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے!
اسلام کے نظامِ عبادات میں سے نماز ایک ایسا عمل ہے جس کو ادا کرنے سے مسلمانوں کو اپنے خالق و مالک سے سرگوشی کا موقع اور بارگاہِ لم یزل میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ قیامِ نماز، رکوع و سجود، قومہ و جلسہ اور قعدہ وغیرہ اپنے ربّ کے ساتھ سرگوشیوں کے مختلف انداز اور مکالمے ہیں۔ کبھی بندہ دست بستہ ہو کر اظہارِ مدعا کرتا ہے تو کبھی عبودیت جھک کر اقرارِ عجز کرتی ہے۔
پھر انسان سروقد ہو کر ربوبیتِ الٰہی کی حمد و ستایش کا کلمہ پڑھتا ہے اور پھر اس کی جبینِ نیاز خاک و دھول پر سجدہ ریز ہو کر ربِّ اعلیٰ کا قرب چاہنے لگتی ہے۔ پھر غلام اپنے آقا و مالک کے سامنے دو زانو بیٹھ کر تحیاتِ سرمدی کی پاکیزہ التجاؤں سے اس کی رضا و خوشنودی کی تمنا کرتا ہے کہ شانِ کریمی اپنے در پر آئے سوالی کا دامن بھر دے اور اپنے فضل و رحمت کے عطا یاو ہدایا کے ساتھ رخصت کردے۔ [1]
[1] حکیم مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ نے صلوٰۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’پیش رس‘‘ ص ۳۱۔ ۴۵، طبع قدیم بلا تحقیق، (ص: ۴۷ تا ۵۶ طبع جدید محقق) میں اس موضوع کو بڑے خوب صورت انداز سے بیان فرمایا ہے۔