کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 334
میں امام طحاوی رحمہ اللہ کے حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ والی حدیثِ تورّک کو ضعیف کہنے کا رد کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’قاسم بن قطلوبغا نے اپنے رسالے ’’الأسوس في کیفیۃ الجلوس‘‘ میں لکھا ہے کہ حنفیہ کے مسلکِ افتراش کا ثبوت کئی احادیث میں ہے۔‘‘ پھر آگے انھوں نے اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث، اسی طرح سنن سعید بن منصور و طحاوی میں مروی حدیثِ وائل رضی اللہ عنہ ، ابو داود و مسند احمد میں مروی اچھی طرح سے نماز نہ پڑھنے والے اعرابی کے واقعہ والی حدیث اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث (جو قاسم نے اپنے رسالے میں نقل کی ہیں اور ہم بھی ان میں سے بعض ذکر کر چکے ہیں) انھیں نقل کرنے کے بعد علامہ لکھنوی لکھتے ہیں: ’’ذہین و فطین آدمی سے یہ بات مخفی نہیں کہ یہ روایات اور انہی جیسی دوسری روایات ہمارے مذہب پر صراحت کے ساتھ دلالت نہیں کرتیں، بلکہ ان میں دوسرا احتمال بھی پایا جاتا ہے اور جو کوئی صریح دال ہے ، وہ اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھنا ہر قعدہ کے لیے ہے، جیسا کہ (ہمارے احناف کا) دعویٰ ہے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں بائیں پاؤں کے اوپر بیٹھنے کے سنت ہونے کا پتا دینے والی کوئی ایک بھی صریح حدیث نہیں پائی جاتی، جبکہ حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ والی حدیث مفصّل ہے۔ لہٰذا مبہم کو مفصّل پر محمول کیا جائے گا۔‘‘[1] غرض نہ تو دونوں قعدوں میں تورّک صحیح و صریح و غیر معارض دلیل سے ثابت ہے نہ افتراش ہی، بلکہ قعدۂ اولیٰ میں افتراش اور قعدۂ ثانیہ یا اخیرہ میں تورّک مسنون و افضل ہے۔ اسے ہی کبار محدّثین کرام رحمہم اللہ نے ترجیح دی ہے۔
[1] مؤطا مع الزرقاني (۱/ ۱۸۵) و مع تنویر الحوالک (۱/ ۱/ ۱۱۳)