کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 33
روایات کی بنیاد پر وضو کا حصہ بنا لیے گئے ہیں، پھر اللہ اکبر کہا، فر فر ثنا و الحمد للہ اور کتر کتر ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ [الإخلاص: ۱] پڑھی اور رکوع میں چلے گئے۔ رکوع سے نجات پائی، پھر سر کو تھوڑا سا اوپر کی جانب جھٹکا دیا اور سجدے میں گر گئے۔
قومے کا پتا ہی نہیں کہ وہ بھی کوئی عمل ہے۔ پھر اس بے قرار سجدے سے سر کو تھوڑا سا اوپر کی جانب جھٹکا دیا اور کوشش کی کہ اوپر کو سر اٹھانے یا نیچے دوبارہ گرانے کے دوران ہی کسی نہ کسی طرح دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں کو چھو جائیں اور دوسرے سجدے کو جا لیا۔ دو سجدوں کے درمیان والے جلسے کا پتا ہی نہیں کہ وہ بھی کچھ ہے۔ اور اسی طرح دوسرے سجدے کے بارِ گراں سے بھی نجات حاصل کر لی۔ پھر دوسری رکعت کو بھی جا لیا اور جلسۂ استراحت سے ہم متعارف ہی نہیں۔
آپ ہی کہیے کہ کیا کثیر مسلمانوں کی نماز واقعی ایسی نہیں ہوتی کہ ساری نماز بے چین، رکوع و سجود غیر مطمئن اور قومہ و جلسہ مضطرب، بلکہ بے نشان؟
بے سرور نماز کا یہ انداز عوام الناس ہی پر بس نہیں، بلکہ ہمارے برصغیر کے کتنے ہی ائمہ مساجد ایسے ہیں کہ دورانِ امامت بھی ان کا قومہ و جلسہ مفقود اور رکوع و سجود بے حضور سے ہوتے ہیں۔ خصوصاً نمازِ تراویح کی دوڑ میں تو لوگ ان کا پیچھا کرنے سے عاجز آجاتے ہیں۔ رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ ہی نہیں، بلکہ ہم نے تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری نماز کا حسین سراپا ہی بگاڑ کر رکھا ہوا دیکھا ہے۔ ایسے ہی دلخراش مناظر کو دیکھ دیکھ کر علامہ اقبال بے ساختہ کہہ اٹھتے تھے: ؎
تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر!
بعض مسائل میں تو فقہی اختلافات کی آڑ لی جا سکتی ہے، مگر جو مسائل تمام ائمہ مجتہدین اور فقہا و محدّثین کے مابین متفق علیہ ہیں، ان کا بھی حلیہ بگاڑ دیا جاتا