کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 32
جائے تو قبول نہیں ہوتی۔ اور حق تو یہ ہے کہ صرف نماز پر ہی کیا بس ہے، خلافِ پیغمبر چلنے والا کوئی شخص کبھی بھی منزلِ مقصود اور گوہر مطلوب کو نہیں پا سکتا۔ اسی نکتہ کو شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کیا خوب انداز سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں : ؎
خلافِ پیمبر کسے راہ گزید کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید
محال است سعدی کہ راہِ صفا تواں رفت جز درپئے مصطفی ( صلی اللہ علیہ وسلم )
مگر اس کے برعکس ہماری نمازوں کا عالَم یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کبھی یہ زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کیا طریقہ بتایا ہے، وہ پڑھیں اور سیکھیں اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز سے متعلقہ ارشادات کا بچشمِ خود مطالعہ کر کے اپنی نمازوں کا ان سے موازنہ کریں۔ بلکہ ہمارا سارے کا سارا انحصار اپنے ماں باپ اور پھوپھی دادی کی نمازوں کی نقل اتارنے پر ہوتا ہے۔ جس طرح وہ نماز پڑھتے ہیں یا پڑھتے تھے، ویسے ہی ہم بھی مشینی سے انداز کے ساتھ نشست و برخاست پر مبنی چند حرکات و سکنات اور کچھ قراء ت و تلاوت اور ذکر و دعا کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اقامتِ صلاۃ یا ادائے نماز کا حق ادا کر دیا ہے۔
اب آپ خود ہی فرمائیں کہ اسے کیا نام دیا جائے، نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا نمازِ آبائی، اور شاید دوسرا نام ہی ٹھیک بیٹھتا ہے، کیوں کہ ہم اپنے آبائی طریقۂ نماز کو اختیار کرتے ہیں۔ نماز کے بارے میں ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کر کے علیٰ وجہ البصیرت مسنونِ نماز نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اہتمام خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ اور ہوتا کیا ہے کہ اپنی ہی مرضی سے سنتوں کا خیال رکھے بغیر جھٹ پٹ وضو کیا، بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اعضائے وضو کو گیلا کیا، کچھ اپنی طرف سے اضافے کیے جو ضعیف و ناقابلِ استدلال