کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 315
’’پھر جب دو رکعتوں کے بعد اٹھے تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر تک اسی طرح اٹھایا جس طرح افتتاحِ نماز کے وقت کیا تھا۔‘‘ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں لکھا ہے: ’’مَا زَادَہُ ابْنُ عُمَرَ وَعَلِیٌّ وَاَبُوْ حُمَیْدٍ فِیْ عَشْرَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ مِنَ الرَّفْعِ عِنْدَ الْقِیَامِ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ صَحِیْحٌ، لِأَنَّہُمْ لَمْ یَحْکُوْا صَلٰوۃً وَاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا فِیْہَا، وَاِنَّمَا زَادَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ، وَالزِّیَادَۃُ مَقْبُولَۃٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ‘‘[1] ’’حضرت ابن عمر و علی اور ابو حمید رضی اللہ عنہم نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں دو رکعتوں کے بعد والی رفع یدین والا جو اضافی جملہ روایت کیا ہے، وہ صحیح ہے، کیوں کہ انھوں نے کسی ایک نماز کی حکایت بیان کر کے اس میں اختلاف نہیں کیا، بلکہ انھوں نے ایک دوسرے سے زیادہ امور ذکر کیے ہیں اور اہلِ علم کی طرف سے مروی اضافی جملہ مقبول ہوتا ہے۔‘‘ امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں: ’’ہُوَ سُنَّۃٌ وَاِنْ لَّمْ یَذْکُرْہُ الشَّافِعِيُّ فَالْاِسْنَادُ صَحِیْحٌ، وَقَدْ قَالَ: قُوْلُوْا بِالسُّنَّۃِ وَدَعُوْا قَوْلِیْ‘‘[2] ’’یہ سنت ہے، اگرچہ امام شافعی نے اسے ذکر نہیں کیا۔ اس کی سند صحیح ہے اور ان کا اپنا قول ہے کہ سنت کے مطابق فتویٰ دو، میرا قول (سنت کے مخالف ہو تو اسے) چھوڑ دو۔‘‘ دورِ حاضر کے فقیہِ اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ’’فتح الباري‘‘ پر بھی تعلیقات
[1] سنن أبي داوٗد مع العون (۲/ ۴۴۲) فتح الباري (۲/ ۲۲۲) سنن الترمذي مع العون (۲/ ۱۰۰۔ ۹/ ۳۸۰ بالإشارۃ مطولا) مسند أحمد، الفتح الرباني (۳/ ۱۶۴) ابن خزیمۃ (۱/ ۲۹۴ و۳۴۴، المرعاۃ (۲/ ۲۹۰) ابن ماجہ (۱/ ۱۴۳) جزء رفع الیدین إمام بخاري (ص: ۲۹۔ ۳۹) سنن البیہقي (۲/ ۷۴، سنن الدار قطني (۱/ ۱/ ۲۸۷) التلخیص (۱/ ۱/ ۲۱۹) نصب الرایۃ (۱/ ۴۱۲) [2] صحیح ابن حبان ۔الاحسان۔ (۵/ ۱۸۳) سنن أبي مع العون (۲/ ۴۴۳) مشکاۃ (۱/ ۲۵۱)