کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 310
تیسری دلیل: مسندابو یعلی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: (( إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ لَا یَزِیْدُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ عَلَی التَّشَہُّدِ )) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد تشہّدسے زیادہ کچھ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ جواب: یہ روایت ضعیف ہے، کیوں کہ اس کی سند میں انقطاع ہے، جس کی تفصیل ہم نے اپنی مستقل کتاب ’’درود شریف‘‘ میں ذکر کر دی ہے۔[2] غرض قعدۂ اولیٰ میں درود شریف کی ممانعت کا پتا دینے والی کل تین احادیث میں سے دو تو صحیح ہی نہیں اور جو ایک صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہے ، اس سے اس مسئلے پر کئی وجوہات کی بنا پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ لہٰذا ممانعت کی کوئی خاص وجہ نہ ہوئی اور نہ قعدۂ اولیٰ میں درود شریف پڑھنے والے کے لیے سجدۂ سہو کی کوئی ضرورت رہی۔ درود شریف کے صیغے: درود شریف کے متعدد صیغے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہیں، جنھیں ہم آگے چل کر درود شریف کے غیر مختلف فیہ مقام ’’قعدۂ ثانیہ‘‘ میں ذکر کریں گے۔ إن شاء اﷲ! قعدۂ اُولیٰ بھول جانا: جو شخص نمازِ فجر یا کوئی بھی دو رکعتوں والی نماز پڑھ رہا ہو تو اس کا تو یہی
[1] سنن أبي داود مع معالم السنن خطابي و تہذیب السنن ابن قیم (۱/ ۱/ ۲۰۲) و مع العون (۳/ ۲۸۶) الفتح الرباني (۴/ ۱۷) سنن الترمذي مع التحفۃ (۲/ ۳۶۱) مصنف ابن أبي شیبۃ (۱/ ۲۳۹) التلخیص الحبیر لابن حجر (۱/ ۱/ ۲۶۳) [2] حوالا جات سابقہ و فتح الباري (۲/ ۳۱۴) و ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ مذکورہ سابقہ و ’’الاعتصام‘‘ لاہور (جلد ۴۵، شمارہ ۱، ۱۴۱۳ھء بمطابق ۱۹۹۲ء) [3] کتاب الأم للشافعي (۱/ ۱۲۱) نیل الأوطار للشوکاني (۲/ ۴/ ۲۸۸)