کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 309
ابن مسعود رضی اللہ عنہم ہی سے مروی ہے: (( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضَفِ )) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں کے بعد قعدہ کرتے تو یوں بیٹھتے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گرم پتھر پربیٹھے ہوں۔‘‘ اس حدیث سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف التحیات ہی پڑھتے ہوں گے اور درود شریف نہیں، ورنہ گرم پتھر پر بیٹھنے کا کیا معنیٰ؟ جواب: اول تو یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح نہیں، لیکن اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو اس کے ظاہری الفاظ سے نہ صرف درود شریف بلکہ التحیات بھی نہ پڑھنے کا پتا چلتا ہے، کیوں کہ جس گرم پتھر پر بیٹھ کر درود شریف نہیں پڑھا جا سکتا، اس پر بیٹھ کر پورا التحیات کیسے پڑھا جا سکتا ہے؟ جس جگہ التحیات کا پڑھنا ممکن ہے، وہاں درود شریف پڑھ لینا بھی ممکن ہے۔ پھر یہ حدیث بھی منقطع ہونے کی وجہ سے معلول ہے۔[2] امام شافعی نے ’’کتابُ الأم‘‘ میں اس حدیث کو ذکر کر کے لکھا ہے کہ قعدۂ اولیٰ میں صرف تشہّداور درود شریف پڑھا جائے اور دعائیں وغیرہ کر کے اس قعدہ کو زیادہ لمبا نہ کیا جائے۔ اسی سے ملتی جلتی بات امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔[3]
[1] صحیح ابن خزیمۃ (۱/ ۳۵۰) مسند أحمد (۱/ ۴۵۹) وصححہ أحمد شاکر (۶/ ۱۴۸ وما بعد) الفتح الرباني (۴/ ۲، ۳) مجمع الزوائد (۲/ ۱۴۲ ووثق رجالہ) [2] ملخصاً از مقالہ سید راشدی بحوالہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور (جلد ۴۱، شمارہ ۴۷، بابت ۸ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۰ھ بمطابق ۸ دسمبر ۱۹۸۹ء) و مضمون حافظ عبدالستار الحماد، ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ لاہور (جلد ۲۰، شمارہ ۴۲، ۱۹۸۹ء)