کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 303
قعدۂ اولیٰ میں درود شریف قعدۂ اولیٰ میں تشہّدیا التحیّات کے متعدد صیغے ذکر کیے جا چکے ہیں، جو صحیح احادیث میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیے ہیں۔ یہیں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ معروف تو یہی ہے کہ تشہّدپڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس میں درود شریف نہیں پڑھتے، بلکہ پڑھ لینے پر سجدہ سہو کرنے کا بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ قعدۂ اولیٰ میں بھی درود شریف پڑھنا چاہیے، یا یہ کہ یہ بھی جائز ہے اور سجدۂ سہو لازم ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ دونوں طرف ہی دلائل بھی موجود ہیں۔ تحقیقاتِ جدیدہ اور ایک اصولی قاعدہ: یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ مختلف وسائل و ذرائع کا انسان کی تحقیق پر اثر پڑتا ہے۔ شریعت نے بھی انسان کو اختیار دیا ہے کہ از روئے دلیل صحیح تر بات کو زیرِ عمل لایا جائے، وہ چاہے جب بھی ثابت ہو جائے۔ صحیح تر کے ثابت ہو جانے کے بعد مرجوح کو ترک کر دینا ہی اہلِ تحقیق کی شان ہے۔ یہ بات مسئلہ زیرِ بحث میں بڑی آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ خود علمائے حدیث خصوصاً علمائے برصغیر پاک و ہند کا بعض مسائلِ نماز میں جو تعامل تھا، موجودہ دَور کے بعض علمااور خصوصاً عرب علماکی تحقیق اُن سے مختلف ہے اور علمی میدان میں ایسا ہونا فطری عمل ہے۔ ایسے مسائل ہی میں سے ایک ’’قعدۂ اولیٰ میں درود شریف‘‘ بھی ہے۔ جبکہ دورِ حاضر تک متعدد کتبِ حدیث کے شائع ہو جانے اور بعض اہلِ علم
[1] النیل (۲/ ۴/ ۲۷۹) الإرواء (۲/ ۲۷ وقد مرّ) [2] موطأ مع الزرقاني (۱/ ۱۸۷) الإرواء (۲/ ۲۷) وصححہ علی شرط الشیخین۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: مقدمۃ صفۃ الصلاۃ (ص: ۱۷۔ ۲۵) طبع جدید مکتبۃ المعارف الریاض۔