کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 300
سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تشہّدسکھایا تھا۔ پھر آگے خطاب کے صیغے والا تشہّدذکر کیا۔ اس میں ابو عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (( اِنَّا کُنَّا نَقُوْلُ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا کَانَ حَیًّا )) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب زندہ تھے تو ہم کہتے تھے: ’’أَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ‘‘۔‘‘ تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (( ہٰکَذَا عُلِّمْنَا وَہٰکَذَا نُعَلِّمُ )) [1] ’’ہمیں ایسے ہی سکھلایا گیا اور ہم بھی ایسے ہی سکھلائیں گے۔‘‘ اس حدیث سے یہ شک پڑتا ہے کہ شاید غائب کے صیغہ کا استعمال جائز نہ ہوگا، اسی لیے تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس روایت میں (( اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ )) کے بجائے (( اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ )) ہی سکھلانے کی بات کی ہے، جبکہ درحقیقت ایسی کوئی بات نہیں، کیوں کہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہی سے غائب کے صیغے سے (( اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ )) بھی ثابت ہے، جو ابو معمر کی روایت ہے اور یہ ابو عبیدہ والی سنن سعید بن منصور کی روایت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، کیوں کہ ابو عبیدہ کا تو اپنے والدِ گرامی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے سماع ہی ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ سند ہی اس انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہوئی۔ بھلا کوئی ایسی روایت صحیح بخاری کی حدیث کے مقابلے میں کیسے پیش کی جا سکتی ہے! حافظ ابن حجر کی بیان کردہ اس تفصیل کو علامہ قسطلانی و زرقانی اور علامہ عبدالحی لکھنوی جیسے کبار محقّقین علمانے بھی ذکر کیا ہے اور اس کا کوئی تعاقب نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ موافقت کی ہے جس سے ان کے اس کلام کا وزن معلوم ہو جاتا ہے۔[2]
[1] فتح الباري (۲/ ۳۱۴) و صححہ۔