کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 295
ہی سے پڑھنا سنت ہے، اسے بلند آواز سے پڑھنا صحیح نہیں، کیوں کہ ابو داود، ترمذی و مستدرک حاکم اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ تُخْفَی التَّشَہُّدُ )) [1] ’’سنت یہ ہے کہ تشہد بلا آواز پڑھا جائے۔‘‘ تشہّد کے مختلف صیغے: تشہّد کے مختلف صیغے کتبِ حدیث میں مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور روایت کرنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں ہی سے موسوم ہیں، مثلاً تشہّدِ ابن مسعود، تشہّدِ ابن عباس، تشہّدِ ابن عمر، تشہّدِ ابو موسیٰ اشعری، تشہّدِ عمر بن خطاب اور تشہّدِ عائشہ رضی اللہ عنہم ۔ 1 تشہدِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ : تشہّدکا پہلا اور معروف صیغہ تشہّدِابن مسعود کہلاتا ہے، جو صحیح بخاری و مسلم، ابو داود، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند سراج و ابو یعلی اور مسند احمد میں ان سے مروی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد اس انداز سے سکھایا کہ میرا ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں میں تھا اور اہتمام کا یہ عالم تھا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قرآنِ کریم کی کوئی سورت سکھا رہے ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز و اہتمام سے جو تشہّد سکھایا وہ یہ تھا: (( التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ))
[1] دیکھیں: صحیح البخاري، کتاب الأذان، باب من لم یر التشہّد الأول واجبًا لأن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قام من الرکعتین ولم یرجع (۲/ ۳۰۹) صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب ذکر البیان بأنّ جلوس المرء في الصلاۃ للتشہّد الأوّل غیر فرض علیہ، و باب لیس بفرض علی المصلی۔ و باب غیر فرض علی المصلین (۵/ ۲۶۴، ۲۶۶، ۲۶۷، ۲۶۸) الروضۃ الندیۃ صدیق حسن خان (۱/ ۱/ ۸۶) نیل الأوطار (۲/ ۳/ ۱۲۰، ۱۲۱) [2] النیل (۲/ ۳/ ۱۲۱)