کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 276
محدّثینِ کرام رحمہم اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[1] 3- سنن ابو داود میں ایک روایت میں عبدالجبار بن وائل بن حجر اپنے والد حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں: ’’جب آپ اٹھتے تو گھٹنوں کے بل اٹھتے اور اپنی رانوں پر ٹیک لگا لیتے تھے۔‘‘[2] جبکہ یہ روایت منقطع ہے، کیوں کہ عبدالجبار کا اپنے والد سے سماع ثابت ہی نہیں ہے۔[3] خلاصۂ کلام: سابق میں ذکر کی گئی مدلل بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر لمحہ بھر کے لیے بیٹھ جائیں۔ یہ جلسۂ استراحت مستحب ہے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر لگائیں۔ بہتر ہوگا کہ آٹا گوندھنے کے انداز کی طرح ہاتھوں کی مُٹھیاں بندہوں اور ان کے بل پر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس طرح یہاں تک پہلی رکعت سے متعلقہ ضروری احکام و مسائل مکمل ہوگئے۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ!
[1] بحوالہ التلخیص (۱/ ۱/ ۲۶۰) ولم یتکلم علیہ۔ [2] سنن الترمذي (۲/ ۱۶۸۔۱۶۹) سنن البیھقي (۲/ ۱۲۴) تحقیق زاد المعاد (۱/ ۲۴۰) [3] مصنف ابن أبي شیبۃ (۱/ ۴۳۲) بتحقیق سعید اللحام، الضعیفۃ (۲/ ۳۹۳)