کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 271
’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی اور تیسری رکعت جن کے بعد قعدہ نہیں ہے، ان سے اٹھنے لگتے تو پہلے بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہوتے تھے۔‘‘ 3- اس جلسۂ استراحت کا ذکر تو ’’صحیح البخاري، کتاب الإستئذان، باب من ردّ فقال: علیک السّلام‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح نماز نہ پڑھنے والے اعرابی کے معروف واقعہ پر مشتمل حدیث میں بھی آیا ہے، جس کے دوسرے سجدے کے بعد والی نماز سے متعلق الفاظ یہ ہیں: (( ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا )) [1] ’’پھر اٹھو اور خوب اطمینان سے بیٹھ جاؤ۔‘‘ یہ حدیث انہی الفاظ پر مشتمل مشکوٰۃ شریف میں بھی موجود ہے۔[2] انہی احادیث کے پیشِ نظر امام شافعی، ایک روایت میں امام احمد بن حنبل اور علمائے حدیث کی ایک جماعت اس ’’جلسۂ استراحت‘‘ کی مشروعیّت کی قائل ہے۔ علامہ ابنِ قیم، امام ابنِ قدامہ، ابنِ حجر و شوکانی نے خلال سے نقل کیا ہے کہ امام احمد نے اپنے دوسرے قول سے رجوع کر لیا تھا اور مطلقاً ’’جلسۂ استراحت‘‘ کی مشروعیت و استحباب کے قائل ہو گئے تھے۔[3] مانعین کے دلائل: کچھ اہلِ علم اس جلسہ کے استحباب کو نہیں مانتے۔ مانعینِ جلسۂ استراحت کا استدلال جن روایات سے ہے وہ درج ذیل ہیں: 1- ان میں سے پہلی ابو داود، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ، ابنِ حبان، دارقطنی و بیہقی،
[1] صحیح البخاري (۲/ ۱۶۳، ۲۸۸، ۳۰۲، ۳۰۳۔ الارواء (۲/ ۸۲، ۸۳) وقد مرّ مفصلًا۔ المنتقیٰ مع النیل (۲/ ۳/ ۱۱۷) سنن أبي داوٗد مع العون (۳/ ۷۶۔ ۷۸) سنن البیھقي (۲/ ۱۲۳) ابن أبي شیبۃ (۱/ ۴۳۲) الإحسان (۵/ ۲۶۱) ابن خزیمۃ (۱/ ۳۴۱) شرح السنۃ (۳/ ۱۶۵)