کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 267
ابو عوانہ اور ابنِ خزیمہ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث بیان کر چکے ہیں جس میں ہے: (( … ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا )) اسی مفہوم کی دیگر احادیث سے اس جلسے میں اطمینان کا وجوب اخذ کیا گیا ہے اور ان دونوں سجدوں کے درمیان کم از کم اتنا بیٹھنا چاہیے کہ جسم کے تمام جوڑ اپنی اپنی جگہ پر آجائیں، کیوں کہ ابو داود و بیہقی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ضمن میں اس جلسہ کی نسبت مروی ہے: (( ۔۔۔ یَطْمَئِنُّ حَتَّیٰ یَرْجِعَ کُلُّ عَظْمٍ اِلٰی مَوْضِعِہٖ )) [1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے، حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی اصل جگہ پر آجاتی۔‘‘ بین السجدتین کی دُعائیں: 1- پہلی دعا ابو داود، ترمذی، ابنِ ماجہ، بیہقی اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان یہ دعا کیا کرتے تھے: (( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاہْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِیْ )) ’’ اے اللہ !میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر، مجھے ہدایت و عافیت دے اور مجھے رزق سے نواز۔‘‘ ابن ماجہ میں (( وَاجْبُرْنِیْ وَارْفَعْنِیْ )) (میرے گناہ مٹا دے اور میرے درجات بلند کر دے) کے الفاظ آئے ہیں اور ’’وَاہْدِنِيْ وَعَافِنِيْ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ مستدرک حاکم میں یہ سبھی الفاظ موجود ہیں، سوائے ’’عَافِنِيْ‘‘ کے اور امام حاکم کی سند بھی متکلم فیہ ہے۔ [2]
[1] صحیح مسلم (۳/ ۵/ ۱۸، ۱۹) سنن أبي داوٗد مع العون (۳/ ۷۹) و أبي داوٗد مع معالم السنن (۱/ ۱/ ۱۸۰) ابن خزیمۃ (۱/ ۳۳۸، ۳۳۹) سنن البیھقي (۲/ ۱۱۹) [2] ابن خزیمۃ (۱/ ۳۳۸)