کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 258
1- نہایت درجہ قربِ الٰہی: صحیح مسلم، ابو داود و نسائی، ابو عوانہ و بیہقی، شرح السنہ بغوی اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّہٖ وَہُوَ سَاجِدٌ، فَاَکْثِرُوا الدُّعَائَ )) [1] ’’بندہ اپنے رب کے قریب تر اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو، لہٰذا سجدے میں بکثرت دعائیں کیا کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ تو ہر حال ہی میں بندے کے قریب ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾ [قٓ: ۱۶] ’’ہم بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘ لیکن سجدہ ایک ایسا عمل، ایک ایسی حالت اور ایک ایسی کیفیت و ہیئت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے۔ ربّ قدوس کی رضا و خوشنودی کا دریا موجیں مارتا ہے اور قبولیت گویا دعا کے لیے سراپا انتظار ہوتی ہے۔ اسی لیے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سجدے میں بکثرت تسبیح و دعا کریں۔ 2- سجدے سے جنت کا حصول اور شیطان کا رونا: صحیح مسلم و ابن ماجہ، ابو عوانہ و بیہقی اور شرح السنہ و مسند احمد میں بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جب بنی آدم آیتِ سجدہ پڑھے اور سجدہ کرے تو شیطان الگ ہو کر روتا اور کہتا ہے: میں برباد ہو گیا۔ ابنِ آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ
[1] شرح مسلم للنووي (۵/ ۳۷) [2] اس موضوع سے متعلق تفصیل ہماری کتاب ’’فقہ الصلاۃ‘‘ کی جلد (۳) میں مذکور ہے۔