کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 253
’’جب نماز پڑھو تو اپنے بالوں کو باندھ کر نہ رکھو! تمھارے بال بھی تمھارے ساتھ سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ اُس آدمی نے کہا: ’’میں ڈرتا ہوں کہ انھیں مٹی لگ جائے گی۔‘‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’انھیں مٹی کا لگنا تمھارے حق میں بہتر ہے۔‘‘[1] 2- حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایسے ہی نماز پڑھنے والے شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اپنے بالوں کو لٹکتا ہوا چھوڑ دو، تا کہ وہ بھی تمھارے ساتھ سجدہ کریں۔‘‘[2] 3- مصنف ابن ابی شیبہ ہی میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے بالوں کو باندھ کر کسی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’اے بھتیجے! بالوں کو باندھ کر نماز پڑھنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اِس حال میں نماز پڑھے کہ اس کے بازو بندھے ہوئے ہوں۔‘‘[3] ان الفاظِ حدیث و آثار کی بنا پر کپڑوں اور بالوں کو لپیٹنا ممنوع ہے۔ عورتوں کے لیے حکم: اس ساری تفصیل سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ شاید اس معاملے میں عورتوں کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی اپنے بالوں کو نہ باندھیں یا سمیٹیں، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ بال عورت کا حسن ہے اور حسن و زینت ہونے کے علاوہ مقامِ ستر بھی ہے۔ انھیں وہ جس انداز سے بھی باندھ سنبھال کر رکھے اس کے لیے جائز ہے اور اس حکم کے عورتوں
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۹۰)