کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 250
شرح السنہ بغوی اور بیہقی میں حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت کا پتا دینے والی معروف حدیث میں ہے: (( وَاسْتَقْبَلَ بِاَطْرَافِ اَصَابِعِ رِجْلَیْہِ القِبْلَۃَ )) ’’اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رُو رکھا۔‘‘ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب پاؤں کھڑے ہوں۔ اسی طرح صحیح مسلم، ابن خزیمہ، مستدرک حاکم و بیہقی اور معانی الآثار طحاوی میں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک واقعہ مروی ہے جس میں وہ فرماتی ہیں: ’’ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر سے غائب پایا، میں نے تلاش کیا تو میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی اندرونی جانب پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کھڑے تھے۔‘‘[1] یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بوقتِ سجدہ نمازی کے لیے ضروری ہے کہ مَرد ہو یا عورت، اپنے پاؤں کھڑے رکھے اور پاؤں کی انگلیوں کو اس انداز سے زمین پر ٹکا کر رکھے کہ وہ قبلہ رُو رہیں۔ جبکہ بعض سُستی و لاعلمی کی وجہ سے پاؤں کو صحیح کھڑے رکھنے کے بجائے پیچھے کو بچھا دیتے ہیں جس سے دو طرح کی خلاف ورزی ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ پاؤں کھڑے نہیں رہتے، دوسرے یہ کہ پاؤں کو پیچھے کی طرف بچھا دینے سے پاؤں کی انگلیوں کا رخ بھی قبلہ کو نہیں ہوتا، بلکہ غیر قبلہ کو ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پاؤں کا سجدہ ہی کیا ہوگا ؟جبکہ وہ قبلہ رو نہ ہوئے، حالانکہ جسم کے تمام اعضاء کو مسنون انداز سے رکھا جائے تو تمام اعضاء ہی سجدہ ریز ہوجاتے ہیں، جو مطلوب و مقصود اور ذریعۂ ازدیادِ اجر ہے۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ۔
[1] مراسیل أبي داود، سنن البیہقي، صفۃ الصلاۃ (ص: ۱۱۴) سبل السلام (۱/ ۱/ ۱۸۳) [2] صفۃ الصلاۃ (ص: ۱۴۴)