کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 246
بوڑھوں اور کمزوروں کے لیے رخصت: سجدے کی مسنون کیفیت کے سلسلے میں جو احادیث ذکر کی جاچکی ہیں ، ان کی رو سے بوقتِ سجدہ نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ تو اپنی کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھے نہ پہلوؤں سے جوڑ کر رکھے اور نہ بازوؤں کو زمین پر بچھائے، بلکہ زمین سے اٹھا کر پہلوؤں اور گھٹنوں سے الگ رکھے۔ ظاہر ہے کہ تندرست و نوجوان مرد و زن اس کیفیت کو بآسانی اختیار کر سکتے ہیں، البتہ انتہائی بوڑھے اور بیمار و کمزور شخص کے لیے یہ انداز مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں ایسی صورت میں کہنیوں کو گھٹنوں پر لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ایسے ہی اگر آدمی رات کو طویل رکوع و سجود کرے اور کہنیوں یا بازوؤں کو الگ رکھنے کا متحمّل نہ ہو تو اس کے لیے بھی گنجایش ہے کہ کہنیوں کی اپنے گھٹنوں پر ٹیک لگا لے۔ چنانچہ سنن ابی داود (کتاب الصلاۃ، باب الرخصۃ في ذلک للضرورۃ)، سنن بیہقی، ترمذی اور مستدرک حاکم و ابنِ حبان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( اِشْتَکٰی اَصْحَابُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِلَی النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مُشَقَّۃَ السُّجُوْدِ عَلَیْہِمْ اِذَا انْفَرَجُوْا فَقَالَ: اِسْتَعِیِْنُوْا بِالرُّکَبِ )) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہما نے بحالتِ سجدہ کہنیاں پہلوؤں سے ہٹا کر اور اٹھا کر رکھنے میں مشقت کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹنوں (پر ٹیک لگا کر اُن) سے تعاون حاصل کر لو۔‘‘
[1] سنن الترمذي (۲/ ۱۵۰) شرح السنۃ (۳/ ۱۴۳، ۳۲۵) صحیح ابن ماجہ (۱/ ۱۴۷) ابن خزیمۃ (۱/ ۳۲۵۔ وصححہ الأعظمی) الفتح الرباني (۳/ ۴۷۸) [2] صحیح ابن خزیمۃ (۱/ ۳۲۵) مجمع الزوائد (۱/ ۲/ ۱۲۶) فتح الباري (۲/ ۲۹۴ وصححہ) الاحسان في ترتیب ابن حبان (۵/ ۲۴۲) وانظر نصب الرایۃ (۱/ ۳۸۰۔ ۳۸۶) صفۃ الصلاۃ (ص: ۸۴) وصححہ في الإرواء (۲/ ۲۴۲) [3] الإحسان بتقریب ابن حبان (۵/ ۲۴۳) ابن خزیمۃ (۱/ ۳۲۳) و سنن البیھقي (۲/ ۱۰۷) مصنف ابن أبي شیبۃ موقوفًا (۱/ ۲۶۱ کما في الإحسان) مسند أحمد (۴/ ۲۹۵) وقال الأعظمی في تحقیق ابن خزیمۃ: وقال الھیثمی في المجمع (۱/ ۲/ ۱۲۸): رجالہ رجال الصحیح۔ ولم یتعقب علیہ الألباني ولا الأرناؤوط۔