کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 242
سے جوڑ کر ہی ہاتھ رکھ لیتے ہیں، وہ سنت سے کچھ ’’پیچھے‘‘ رہ جاتے ہیں، کیوں کہ حدیثِ شریف میں صرف یہ دو جگہیں ہی آئی ہیں، یا کانوں کے برابر یا کندھوں کے برابر، اور یہی دونوں جائز و ثابت ہیں۔ ان دونوں طرح کی احادیث میں الگ الگ جگہ کے وارد ہونے کو امام ابن خزیمہ نے ’’اختلافِ مباح‘‘ میں سے قرار دیا ہے۔[1] یہ اللہ کی رحمت اور دین کی آسانی کا مظہر بھی ہے کہ ان دونوں جگہوں میں سے جو جہاں بھی ہاتھ رکھ لے اُس کی نماز صحیح و مسنون کیفیت کے مطابق ہوگی۔ البتہ ہاتھوں کو گھٹنوں کے ساتھ اور پسلیوں کے برابر رکھنا کہیں نہیں آیا لہٰذا کاہلی و سستی کے نتیجے میں ایسا کرنے والوں کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے۔ ہاتھوں اور انگلیوں کی کیفیت: اب رہی یہ بات کہ ہاتھوں اور انگلیوں کو کس طرح رکھا جائے، تو اس سلسلے میں صحیح ابن حبان ، ابن خزیمہ، مستدرک حاکم اور سنن کبریٰ بیہقی میں حسن درجہ کی سند کے ساتھ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ اِذَا سَجَدَ ضَمَّ اَصَابِعَہٗ )) [2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسری سے ملا کر رکھتے تھے۔‘‘ ہاتھوں کی انگلیاں قبلہ رُو رہیں اور انھیں جوڑ کر رکھنے سے ایسا خودبخود ہو جائے گا۔ البتہ بعض لوگ بڑی بے توجہی سے ہاتھوں کو زمین پر اس طرح رکھتے ہیں
[1] صحیح مسلم (۲/ ۴/ ۱۱۴) تحفۃ الأحوذي (۲/ ۱۴۴) المعجم المفہرس (۶/ ۲۹)