کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 240
2،3 دونوں ہاتھ: سجدہ میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو بھی زمین پر لگانا ضروری ہے اور اس بات کی پہلی دلیل ابو داود و نسائی، صحیح ابن خزیمہ، مسند احمد و سراج، بیہقی، منتقیٰ ابن الجارود، موطا امام مالک (موقوفاً) اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی وہ حدیث ہے، جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’ہاتھ بھی چہرے کی طرح سجدہ کرتے ہیں۔ تم میں سے کوئی چہرہ زمین پر لگائے تو دونوں ہاتھ بھی رکھے اور جب چہرہ اٹھائے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھا لے۔‘‘[1] اسی طرح صحیح بخاری، ابوداود، ابن خزیمہ، بیہقی اور دیگر کتب میں حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے: (( فَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِہِمَا، وَاسْتَقْبَلَ بِاَطْرَافِ اَصَابِعِہِ الْقِبْلَۃَ…الخ )) [2] ’’جب سجدہ کیا تو دونوں ہاتھوں کو نہ بچھا کر اور نہ بھینچ کر زمین پر رکھا اور اپنی انگلیوں کو قبلہ رُو رکھا۔‘‘ ہاتھوں کو رکھنے کی جگہ: کتبِ حدیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ نمازی سجدہ کے دوران اپنے دونوں ہاتھوں کو یا تو اپنے کانوں کے پاس (برابر) رکھے یا پھر اپنے کندھوں کے برابر (پاس)۔ 1- اس سلسلے میں ابو داود و نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان، سنن دارمی، مصنف عبدالرزاق
[1] صحیح البخاري (۲/ ۲۹۸) صحیح مسلم (۴/ ۷/ ۶۳، ۶۴) سنن أبي داوٗد (۳/ ۱۶۵) مصنف عبد الرزاق (۲/ ۱۸۱، باب فضل لیلۃ القدر۔ [2] سنن دارقطني (۱/ ۱/ ۳۴۸۔ ۳۴۹) و قال الدارقطني: والصواب عن عاصم عن عکرمۃ مرسلاً۔ مستدرک حاکم (۱/ ۲۷۰) وقال: صحیح علی شرط البخاري۔ تحفۃ الأحوذي (۲/ ۱۴۴) و انظر: مصنف عبد الرزاق (۲/ ۱۸۲) و صفۃ الصلاۃ (ص: ۸۳)