کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 201
تبوک کے ایام میں ہے۔[1]
انھوں نے یہ حدیث ۹ھ یا ۱۰ھ میں بیان کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا تقریباً آخری سال ہے۔ گویا اس وقت تک رفع یدین منسوخ نہیں ہوئی تھی اور اس کے عدمِ نسخ کا اعتراف خود علامہ سندھی حنفی نے حاشیہ نسائی و ابن ماجہ میں کیا ہے۔[2]
تیسری دلیل:
صحیح مسلم، ابو داود و ابن ماجہ، ابن حبان، ابن خزیمہ، دارمی، دارقطنی، بیہقی، صحیح ابو عوانہ، مصنف عبد الرزاق، مسند احمد، حمیدی، محلّیٰ ابن حزم، التمہید لابن عبدالبر اور جزء امام بخاری میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے شروع میں تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے دیکھا (اور ہمام نے بتایا ہے کہ دونوں کانوں تک) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر اوڑھ لی اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر باندھ لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کا ارادہ کیا تو دونوں ہاتھوں کو کپڑے سے نکالا اور رفع یدین کی، پھر تکبیر کہی اور رکوع کیا اور جب ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہا تو رفع یدین کی۔۔۔۔‘‘[3]
حضرت وائل رضی اللہ عنہ ۹ھ میں مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تھے ، جیسا کہ علامہ عینی حنفی نے بھی لکھا ہے۔[4] لہٰذا یہ حدیث بھی عدمِ نسخ کی بیّن دلیل ہے ، خصوصاً جب
[1] ان اڑتالیس صحابۂ کرامy کے نام اور ذکر کرنے والے مصنفین کی تفصیل ہم نے ’’رفع الیدین‘‘ کے موضوع پر اپنی مستقل کتاب (مطبوع) میں ذکر کر دی ہے۔ نیز دیکھیں: نصب الرایۃ (۱/ ۴۱۷ و ۴۱۸) فتح الباري (۲/ ۲۲۰) نیل الأوطار (۲/ ۱۶۲) تحفۃ الأحوذي (۲/ ۱۰۰) المحلّی (۴/ ۹۰) الموضوعات لابن الجوزي (۲/ ۹۸) جزء رفع الیدین إمام بخاري (ص: ۱۰، ۳۴، ۴۷، ۵۰، ۵۱) مترجم جزء رفع الیدین سبکی (ص: ۹۳ و ۹۴ مع جزء بخاري) التلخیص الحبیر (۱/ ۱/ ۲۱۸) مشکاۃ (۱/ ۲۵۴ بتحقیق الألباني)
[2] صحیح البخاري (۲/ ۲۱۹) صحیح مسلم (۲/ ۴/ ۹۴) صحیح سنن ابن ماجہ للألباني (۱/ ۱۴۲) ابن خزیمۃ (۱/ ۲۹۵) ابن حبان (۵/ ۱۷۶، الإحسان) مسند أحمد (۳/ ۱۶۷) الفتح الرباني، جزء إمام بخاري، (ص: ۳۱ و ۳۲، نمبر ۷، ۵۴، ۵۵، ۶۶، ۱۰۲) نصب الرایۃ (۱/ ۴۱۰)