کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 194
’’میرا رکوع سے سر اٹھانا تمھیں کوئی نقصان نہیں دیتا، جبکہ تم پر ابھی کچھ باقی ہو، جبکہ تم مجھے سجدہ کرنے سے پہلے پہلے کھڑے پا لو۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو لمبی لمبی دعائیں کیا کرتے تھے۔‘‘ نیز امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس نے امام کی اقتدا میں شامل ہو کر سورۃ الفاتحہ شروع کی اور تکمیل سے پہلے امام رکوع میں چلا گیا تو یہ شخص رکوع نہ کرے، حتیٰ کہ فاتحہ کو پورا کر لے۔ دلیل اس کی وہی ہے جو قبل از یں ہم بیان کر چکے ہیں کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ واجب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’میں تم سے پہلے رکوع یا سجدہ کر گزرتا ہوں تو تم لوگ مسابقت کا ادراک میرے اٹھنے کے بعد کر لیا کرو۔‘‘[1] ان واضح اور مصرح دلائل و شواہد سے معلوم ہوا کہ مقتدی سورۃ الفاتحہ پوری کر کے رکوع کرے۔ بالفرض کوئی مقتدی فاتحہ نامکمل چھوڑ کر رکوع چلا جائے تو اس رکعت کا اعادہ ضروری ہے، کیوں کہ فاتحہ مکمل سورت کا نام ہے، بعض آیات کا نہیں۔صحیح حدیث میں وارد ہے : (( لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ )) ’’جس نے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی ، اس کی کوئی نماز نہیں ہے!‘‘ [2]
[1] دیکھیں: تحفۃ الأحوذي (۹/ ۲۷۷) و تخریج صلاۃ الرسول (ص: ۲۵۹) [2] سنن أبي داوٗد، باب ما یؤمر بہ المأموم من إتباع الإمام۔