کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 193
2- سورۃ الرحمن کی آیت ﴿ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴾ کے جواب والی حدیث میں بھی یہ صراحت قطعاً نہیں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سورۃ الرحمن پڑھی تھی اور جِنّوں نے بھی نماز ہی میں اس آیت کا جواب دیا تھا، بلکہ اغلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بغیر عام حالت میں جِنّوں کو قرآن سنایا تھا۔ لہٰذا کسی صریح و صحیح اور مرفوع حدیث میں مقتدی کے بھی جواب دینے کی صراحت نہ ہونے کی بنا پر مقتدیوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے۔ تحفۃ الاحوذی میں علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ البتہ مقتدی بھی آہستہ آواز میں جواب دے اور کہہ لے تو اس کی گنجایش نکل سکتی ہے کہ پڑھنے والے کی طرح ہی سننے والا بھی مخاطب ہوتا ہے۔[1] امام خود اور منفرد یا اکیلا نماز پڑھنے والا نمازی احادیث سے ثابت جواب دے سکتا ہے، بلکہ یہ مستحب ہے۔ مقتدی اگر امام کے رکوع میں جانے سے پہلے سورۃ الفاتحہ مکمل نہ کر سکے تو وہ کیا کرے؟ ’’اس صورت میں مقتدی سورۃ الفاتحہ پوری کر کے امام کے ساتھ مل جائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’مجھ سے پہلے نہ رکوع کرو نہ سجدہ۔ میں اسے تم سے پہلے کر گزرتا ہوں تو تم مسابقت کا ادراک میرے اٹھنے کے بعد کر لیا کرو۔ بے شک میں (کبر سنی یا جسم کے بھاری ہونے کے اعتبار سے) بوجھل ہوچکا ہوں۔‘‘[2] شارح حدیث امام خطابی نے حدیثِ ہذا کا مفہوم یوں بیان فرمایا: