کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 157
’’سورۃ الفاتحہ باقی سورتوں کا عوض ہے اور دوسری کوئی سورت اس کا عوض نہیں ہے۔‘‘ چوتھی دلیل: یہاں یہ بات بھی ذکر کرتے جائیں کہ سورۃ الفاتحہ کے مختلف ناموں میں سے ایک ’’الکافیہ‘‘ بھی ہے، جیسا کہ فضائل و مسائلِ فاتحہ کے شروع میں بھی کچھ تفصیل گزری ہے۔ کافیہ کا معنیٰ ہے کفایت کرنے والی کہ صرف اسے ہی پڑھ لیا جائے تو یہ کفایت کر جاتی ہے۔ چنانچہ اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے عبداللہ بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ اسے کافیہ اس لیے کہا گیا ہے: ’’یہ سورت دوسری سورت کی قراء ت سے کفایت کر جاتی ہے، لیکن دوسری کسی سورت کی قراء ت اس سے کفایت نہیں کرتی۔‘‘[1] الغرض ذکر کیے گئے ان دلائل کی رُو سے سورۃ الفاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت یا سورت کا کوئی حصہ ملانا سنت ہے، واجب نہیں۔ اگر کبھی کوئی صرف سورۃ الفاتحہ پڑھ کر ہی رکوع کر لے تو وہ اسے کفایت کر جائے گی اور اس طرح بھی اس کی نماز صحیح ہوگی۔ یہاں ہم یہ بات بھی کہتے جائیں کہ اس طرح محض جائز ہے، لہٰذا اس جواز کو آڑ بنا کر ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی سورت ملائی ہی نہ جائے، بلکہ کسی سورت کا ملانا چونکہ سنت و مستحب ہے اور نماز سے باہر بالعموم اور دورانِ نماز بالخصوص تلاوتِ قرآن ایک عظیم کارِ ثواب ہے، لہٰذاسورۃ الفاتحہ کے ساتھ کوئی سورت بھی ملانی چاہیے تا کہ ثواب میں اضافہ ہو۔ اگر کبھی کبھار کسی وجہ سے کوئی جلدی ہو تو اس جواز پر عمل کیا جا سکتا ہے، تا کہ ارکانِ نماز میں توڑ پھوڑ نہ کرنی پڑے کہ نہ رکوع، نہ قومہ، نہ سجدہ، سب
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۲/ ۲۵۱) سنن البیھقي (۲/ ۶۱) کتاب القراء ۃ مترجم اردو (ص: ۲۳) مسند حمیدی (ص: ۲۸۴) طبع اہل حدیث ٹرسٹ کراچی۔ [2] عمدۃ القاري (۳/ ۶/ ۳۳) [3] فتح الباري (۲/ ۲۵۲) [4] کتاب القراء ۃ، مترجم اردو (ص: ۲۲، ۲۳) [5] مستدرک حاکم (۱/ ۳۶۳) دارقطني (۱/ ۱/ ۳۲۲) کتاب القراء ۃ (ص: ۲۳)