کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 150
بعض دیگر علما: علامہ زیلعی رحمہ اللہ بہت بڑے حنفی عالم و محدّث ہیں۔ ہدایہ کی تخریج ’’نصب الرایۃ‘‘ میں انھوں نے حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (مذکور زیرِ عنوان ’’عملِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘) کے تمام طُرق ذکر کر کے کسی پر کوئی کلام نہیں کیا، جو ان کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔[1] اسی طرح علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری میں آمین بالجہر کی حدیث کو تقریباً صحیح مانا ہے۔[2]علامہ عینی رحمہ اللہ کے نزدیک آمین بالجہر میں پایا جانے والا اختلاف صرف افضل و غیر افضل کا ہے، محض جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔[3] بعینہٖ یہی معاملہ مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ کا بھی ہے۔[4] معروف صوفی محی الدین ابن عربی بھی آمین بالجہر کے قائل تھے۔[5] امام غزالی رحمہ اللہ بھی آمین بالجہر کو سنت قرار دیتے تھے۔[6]علامہ حصفکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مقتدی امام کی آواز سن کر آمین کہیں۔۔۔ اور جہر اُس کو کہتے ہیں کہ سب سنیں۔[7] پیرِ پیراں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ : مشہور و معروف بزرگ پیرِ پیراں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے مریدانِ باصفا بھی نوٹ کر لیں کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’غُنیۃ الطالبین‘‘ میں
[1] ترمذي مع التحفۃ (۲/ ۶۸، ۶۹) [2] دیکھیں: کتاب ’’آمین، معنی ٰو مفہوم، فضیلت، حکم‘‘ زیرِ عنوان ’’علما و فقہائے احناف‘‘