کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 148
غرض احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بلند آواز سے آمین کہنے کا بکثرت تذکرہ آیا ہے۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی مستقل کتاب ’’آمین…‘‘ میں آمین بالجہر کے بارہ دلائل۔ صرف حدیثِ شریف سے ذکر کیے ہیں، لہٰذا اختصار کے پیشِ نظر ہم انھیں یہاں نقل نہیں کر رہے۔
عملِ صحابہ رضی اللہ عنہم :
صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف عبدالرزاق، سنن کبریٰ بیہقی اور کتابُ الاُمّ شافعی میں موصولاً مروی ہے، امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’آمِیْنُ دُعَائٌ۔ اَمَّنَ ابْنُ الزُّبَیْرِ وَمَنْ وَّرَائَ ہُ حَتَّی اَنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّۃً‘‘ [1]
’’آمین ایک دعا ہے۔ حضرت ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ نے آمین کہی اور ان کے پیچھے والوں نے بھی آمین کہی، یہاں تک کہ مسجد گونج اٹھی۔‘‘
اسی طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کا پتا دینے والے متعدد آثار ہیں جن کی تفصیل ہماری متعلقہ کتاب میں درج ہے۔[2]
غرض ان آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی رُو سے اور کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے انکار بھی نہ کرنے سے تو پتا چلتا ہے کہ بلند آواز سے آمین کہنے پر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا گویا اجماع و اتفاق تھا اور ’’اصولِ فقہ حنفی‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم تسلیم کیا جائے۔[3]
ائمہ و فقہا:
ائمہ کرام رحمہ اللہ میں سے امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ ( رحمہم اللہ )
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۲/ ۲۶۲) مسلم مع النووي (۲/ ۴/ ۱۲۸، ۱۲۹) سنن أبي داود مع العون (۲/ ۲۱۱، ۲۱۲) ترمذي مع التحفۃ (۲/ ۷۸) صحیح النسائي للالباني (۱/ ۲۰۱) موطأ مع التنویر (۱/ ۱/ ۱۰۸۔۱۱۱) شرح السنۃ بغوي (۳/ ۶۰) المحلیٰ لابن حزم (۳/ ۲۶۴) إرواء الغلیل للألباني (۲/ ۶۲) مشکوٰۃ بتحقیق الألباني (۱/ ۲۶۳)
[2] صحیح البخاري (۲/ ۲۶۶) صحیح مسلم (۲/ ۴/ ۱۲۹) أبي داود (۲/ ۲۰۹) صحیح النسائي (۱/ ۱۔۲)
[3] الأدب المفرد (ص: ۴۳۷، طبع اوقاف متحدہ عرب امارات) مجمع الزوائد (۱/ ۲/ ۱۱۵) صحیح الترغیب والترہیب للألباني (۱/ ۲۷۸) فتح الباري (۱۱/ ۲۰۰) وصححہ الألباني في صفۃ الصلاۃ (ص: ۵۳)
[4] جزء القراء ۃ للإمام بخاري مترجم اردو (ص: ۱۱۶) أبي داود (۳/ ۲۰۵) ترمذي (۲/ ۶۵۔۶۶) صفۃ صلاۃ النبي للألباني (ص: ۵۳) سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني أیضاً (۱/ ۷۵۵)