کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 134
اسی حدیث میں آگے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (( قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِيْ وَبَیْنَ عَبْدِيْ نِصْفَیْن )) ’’میں نے نماز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔‘‘ نماز کی اس تقسیم کی وضاحت میں ’’نماز‘‘ سورۃ الفاتحہ کو قرار دیا گیا ہے۔ اسی لیے اس سورت کا نام ’’الصلاۃ‘‘ بھی ہے۔ یہ حدیث نماز میں سورۃ الفاتحہ کی فرضیت کی دلیل ہے۔ مقتدی کے لیے حکم: مقتدی کے لیے کیا حکم ہے ؟ اس سلسلے میں عہدِ قدیم سے اختلاف چلا آ رہا ہے۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ مقتدی کم از کم سورۃ الفاتحہ تو ضرور پڑھے اور دوسرے فریق کے نزدیک مقتدی کا صرف خاموشی سے سننا ہی ضروری ہے۔ قائلینِ قراء ت: امام ترمذی نے اپنی سنن میں لکھا ہے کہ مقتدی کو بھی بہرحال سورۃ الفاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے، اس پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ میں سے اکثر اہلِ علم کا عمل رہا ہے۔ امام مالک، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ بھی امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔[1] بعض ائمہ و علمائے احناف کا اختیار: مذکورہ کبار ائمہ مجتہدین کے علاوہ بعض ائمہ و علمائے احناف نے بھی اس موضوع کی احادیث اور سورۃ الفاتحہ کی فضیلت، نیز احتیاط کے پیشِ نظر مقتدی کے لیے سورۃ الفاتحہ کو اگر ضروری نہیں کہا تو کم از کم مستحسن (بہتر) قرار دیا ہے۔ ان سب
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۲/ ۲۳۷) صحیح مسلم مع نووی (۲/ ۳/ ۱۰۰) مشکاۃ المصابیح (۱/ ۲۶۲) بتحقیق شیخ الباني، جزء القراء ۃ امام بخاری مترجـم اردو (ص: ۲۷) طبع إحیاء السنۃ گھرجاکھ گوجرانوالہ۔ بقیہ نو احادیث ہم نے قراء تِ فاتحہ سے متعلق اپنی تفصیلی کتاب میں درج کر دی ہیں، جو الگ سے طبع ہو چکی ہے۔ اس کا مطالعہ آپ کے تمام شکوک و شبہات کو زائل کر دے گا۔ ان شاء اللہ [2] موطأ مع الزرقاني (۱/ ۱۷۵۔ ۱۷۷) و مسلم بحوالہ مشکاۃ (۱/ ۲۶۲) و ابن کثیر (۱/ ۹) بیروت۔