کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 129
تعظیم کے لیے عدد نکالنا ہی ضروری ہیں تو کیا باپ کو نمبر ۵ کہتے ہوں گے؟ یا خط لکھتے ہوئے پیارے اباجان کی جگہ پیارے ۶۰ لکھتے ہوں گے؟ اور اگر کوئی باپ کو ’’ابی‘‘ کہتا ہو گا تو نمبر ۱۵ لکھتا ہوگا؟ اسی طرح اگر کسی کے اعداد ۴۲۰ نکل آئے یا ۳۰۲ تو کیا ہو گا؟ ماں کو ۹۱ نمبر سے بلائیں گے کیا ؟ پھر تو ماں باپ اور عزیز و اقارب نہ ہوئے، مختلف روٹ پر چلنے والی ویگنیں اور بسیں ہو گئیں۔ قارئینِ کرام! حقیقتاً علم الاعداد اور حروفِ ابجد خفیہ زبان (کوڈ وَرڈز) ہیں جنھیں عامۃ الناس دین کا حصہ بنا چکے ہیں، حالانکہ قرآن و احادیث تو دورکی بات، ائمہ و فقہا سے بھی اس کا ثبوت مہیا کرناناممکن ہے۔‘‘[1] ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کے بجائے ۷۸۶ لکھنا لغو اور مہمل ہے۔ مسلمانوں میں یہ عدد کب سے رائج پذیر ہوا، اس کا سراغ نہیں ملا۔ تاہم ’’صدقِ جدید‘‘ لکھنو میں مولانا عبد الحفیظ رحمانی لکھتے ہیں: ’’یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ رواج یہود اور ہنود سے متاثر ہوئے بغیر نہیں آیا۔ جس طرح یہودیوں میں ان کے اسرار بیان کیے جاتے ہیں، اسی طرح ہنود میں بھی اعداد کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ تفصیل کے لیے ویدوں کی تعلیم وغیرہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ’’ظاہر ہے کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کے اعداد کا رواج ابتدائی مرحلے میں یا تو بطورِ تفنّن اور جدّت ہوا ہے یا اس کے پیچھے یہودی ذہن کارفرما تھا۔ یہ بات اس لیے کہی جا رہی ہے کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ نہ صرف مسنون ہے، بلکہ قدیم سے اسلام کا شعار