کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 119
اس حدیث کے آخر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان بھی ہے:
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، بے شک مَیں نماز میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں۔‘‘[1]
’’بِسْمِ اللّٰہِ ۔۔۔‘‘ سِرّاً پڑھنا:
’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کے بارے میں دوسرا مسلک یہ ہے کہ جہری قراء ت والی نمازوں میں بھی امام اسے سراً یعنی بلا آواز پڑھے۔ یہ بھی متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک ہے۔
امام ترمذی و حازمی نے کہا ہے کہ اکثر اہلِ علم کا مسلک یہی ہے کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ جہری نماز میں بھی آہستگی سے بلا آواز ہی پڑھی جائے۔ امام ترمذی نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور تابعین اور امام ابو حنیفہ و نخعی کے علاوہ سفیان ثوری، ابن المبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا نام بھی ذکر کیا ہے۔[2]
سِرّاً ’’بِسْمِ اللّٰہِ ۔۔۔‘‘ پڑھنے کے دلائل:
ان سب کا استدلال بھی متعدد احادیث سے ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1-پہلی حدیث میں حضرت اَنس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر ( رضی اللہ عنہما ) ﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے نماز شروع کرتے تھے۔‘‘[3]
[1] ضعیف النسائي (ص: ۲۹) وقال ضعیف الإسناد، ولم یقل: ضعیف۔ صحیح ابن خزیمۃ (۱/ ۲۵۱) ابن حبان و سنن البیہقي بحوالہ نصب الرایۃ (۱/ ۳۲۴، ۳۲۵، ۳۳۵) فتح الباري (۲/ ۲۶۷) المغني (۲/ ۱۴۷)
[2] ترمذي مع التحفۃ (۲/ ۵۴، ۵۵) نیل الأوطار (۱/ ۲/ ۲۰۶)
[3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۴۳) صحیح مسلم (۲/ ۴/ ۱۱۱) سنن أبي داوٗد (۲/ ۴۸۷۔ ۴۸۹) صحیح نسائي (۱/ ۱۹۶، ۱۹۷)