کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 106
میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں ’’تحتَ السُّرَّۃ‘‘ یا زیرِ ناف کے الفاظ کا اضافہ محلِ نظر ہے، بلکہ یہ غلط ہیں اور سہواً حدیث میں درج ہو گئے ہیں، کیوں کہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کی مراجعت و مطالعہ کیا ہے اور اسی سند کے ساتھ اور انہی الفاظ پر مشتمل حدیث میں نے دیکھی ہے، لیکن اس میں ’’تحتَ السُّرَّۃ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ وہاں اس مرفوع حدیث کے بعد امام نخعی کا ایک اثر بھی مروی ہے اور اس کے الفاظ بھی اس مرفوع حدیث سے ملتے جلتے ہیں۔ اس اثر کے آخر میں ’’فِی الـصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ کے الفاظ ہیں اور ممکن ہے کہ کاتب کی نظر ایک جگہ سے اکھڑی اور دوسری جگہ جا پڑی ہو اور اس نے اِس موقوف اثر کے الفاظ مرفوع حدیث میں لکھ دیے ہوں۔ میری اس بات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس اضافے پر تمام نسخے متفق نہیں ہیں اور کئی محدّثینِ کرام نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی زیرِ ناف کے الفاظ روایت نہیں کیے، بلکہ میں نے نہ سنا ہے اور نہ دیکھا ہے کہ کسی بھی محدّث نے سوائے قاسم بن قطلوبغا کے اس حدیث کو اس اضافے کے ساتھ بیان کیا ہو۔[1] امام زیلعی جنھوں نے اپنے مسلک کے لیے احادیث سے دلائل جمع کرنے کے لیے کمر ہمت باندھی اور اس کام کا بیڑا اٹھایا، انھیں بھی اس اضافے پر مشتمل یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں نہ ملی اور اگر یہ مصنف میں ہوتی تو وہ بھی ضرور نقل کرتے، جبکہ وہ سب سے زیادہ وسیع المطالعہ ہیں۔ [2] علامہ بدر الدین عینی حنفی نے بخاری شریف کی شرح ’’عمدۃ القاري‘‘ میں لکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ابن خزیمہ والی حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر آیا ہے، جبکہ ہمارے علمائے
[1] بحوالہ عون المعبود (۲/ ۴۶۲) تحفۃ الأحوذي (۲/ ۸۴) [2] العون (۲/ ۴۶۳) التحفۃ (۲/ ۸۶)