کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 101
دکھائیں تو بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ اس کیفیت سے ہاتھ باندھنے والا سینے سے نیچے یا کم از کم ناف سے نیچے باندھ ہی نہیں سکتا۔ تو گویا فکر و تامل کرنے پر صحیح بخاری شریف میں بھی ’’فَـوْقَ السُّـرَّۃ‘‘اور ’’عَلَی الصَّدْرِ‘‘ یا ’’عِنْدَ الصَّدْرِ‘‘ ہاتھ باندھنے کی طرف اشارہ موجود ہے۔[1] فَلْیُتَاَمَّلْ
بعض دیگر دلائل:
5-اسلامیانِ برصغیر کے مابین معروف ترین بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ (جو گیارھویں والے پیر کے نام سے مشہور ہیں) انھوں نے اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کے آغاز ہی میں مسنوناتِ نماز کے ضمن میں لکھا ہے:
’’دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف سے اوپر باندھنا سنت ہے۔‘‘[2]
زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے دلائل:
اب آئیے اس سلسلے میں دوسرا مسلک رکھنے والوں کے دلائل کا بھی مطالعہ کریں۔ یہ دوسرا مسلک احناف کا ہے جو زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے قائل و فاعل ہیں اور ان کا استدلال بعض ضعیف احادیث سے ہے:
پہلی حدیث اور اس کی استنادی حیثیت:
ان کی پہلی اور اہم دلیل وہ حدیث ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔‘‘[3]
اگر اس حدیث کی سند صحیح یا حسن درجے کی ہوتی اور متن بھی غیر متنازع فیہ
[1] تحقیق المشکاۃ للألباني (۱/ ۲۴۹) وصفۃ الصلاۃ (ص: ۴۴)
[2] غنیۃ الطالبین مترجم اُردو (ص: ۲۲۔ ۲۳)
[3] ضعیف أبي داود (ص: ۷۴) الفتح الرباني (۳/ ۱۷۱) سنن الدارقطني (۱/ ۱/ ۲۸۶) المنتقٰی (۲/ ۳/ ۲۱) الإرواء (۲/ ۶۹)