کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 90
بدعت ہے۔[1]تاریخیں لکھنا،قبروں پر مزارو مساجد بنانا یا میت کو مسجد میں دفن کرنا بدعت ہے۔[2]قبروں کو چونے،گارے،اینٹ،مٹی سے لیپنا،چراغاں کرنا،منّتیں ماننا،چڑھاوے پکانا،دوردراز سے قصد کرکے حاضری دینا،صاحبِ قبر کو وسیلہ بنانا،قبروں پر اعتکاف کرنا،ان کا طواف کرنا،سجدے کرنا،میلے وعُرس کرنا اور ان سے مشکل کشائی کی اپیلیں کرنا وغیرہ۔ تو آئیے ان امور کا بھی قرآن وسنّت،اسلافِ امت اور علماء کی تعلمات سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ ان کی کوئی شرعی حیثیّت بھی یا یہ صرف سلطانی وپیری وملّائی کے شاخسانے ہیں۔کیونکہ بقول حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ۔ع لَقَدْ اَفْسَدَالدِّیْنَ مُلُوْکٌ وَاَحْبَارُ سُوْئٍ وَرُھْبَانٗ ’’اصل دین کو بے علم بادشاہوں کی پُشت پناہی‘ پیروں کی ہوّسِ گدی نشینی اور ملّاؤں کی حرص وہویٰ نے بگاڑکر رکھ دیا ہے۔‘‘ قبروں پر میلے لگانے اور عُرس کرنے کے متعلق تو گزشتہ صفحات کی وضاحت پر ہی اکتفاء کرتے ہیں کہ ’’عاقل را اشارہ کافی است‘‘ اور دوردراز سے مزاروں پر آکر صاحبِ مزار کو بظاہر’’وسیلہ‘‘ٹھہراتے ہوئے ان سے مشکل کُشائی اور رفعِ حاجات کی درخواست کرنا اور دوسری اقسام شرک کے بارے میں شیخ محمد بن سلیمان التمیمی رحمہ اللہ نے کشف الشبہات کے متن میں مدلّل بیان کردیا ہے۔لہٰذا اسے وہیں دیکھ لیا جائے۔
[1] المدخل۳؍۲۷۲،تلخیص المستدرک للذھبی،اغاثۃ اللھفان۱؍۱۹۸۔۱۹۶،شرح الطریقۃ المحمدیۃ۴؍۳۲۲،الابداع،ص:۹۵،احکام الجنائز وبدعہا،ص:۲۰۱۔۲۰۳ [2] اصلاح المساجد،ص:۱۸۱،احکام الجنائز،ص:۲۱۶،۲۱۹،۲۶۵،تفسیر سورۂ اخلاص لابن تیمیہ،ص:۱۹۲،الردعلیٰ البکریٰ لہٗ،ص:۲۳۳،لابداع،ص:۹۹،مزید تفصیلات کےلیےدیکھیے ہماری کتاب’’احکامِ مساجد‘‘اور’’قبروں والی مساجد میں نماز‘‘اور اردو ترجمہ’’ کشف الشبہات۔‘‘