کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 9
اپنی موت کو بھی بھول چکے ہیں،اور اس دنیا کی رنگینیوں میں کچھ اس طرح کھو گئے ہیں کہ اپنے خالق و مالک کی طرف پلٹ کر جانے کا بھی خیال نہیں آتا،بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ موت بھی ہمیں پوچھ کر اورہماری مرضی کے مطابق آئے اور ربِ کائنات اپنے نظام کو بدل کر ہمارا انتظار کرے۔بقولِ اقبال:
انسان تو اﷲکو یہ کہنے پر تلا ہوا ہے کہ
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
یہ انتہائی مادہ پرستانہ،غافلانہ بلکہ جاہلانہ اور خطرناک ذہن ہے جو کسی مسلمان کو بہرحال زیب نہیں دیتا لہٰذا ذکرِ موت اور فکرِ آخرت سے اتنا بھی غافل نہیں رہنا چاہیئے کیونکہ بقول ِ شاعر ع
اَلْمَوْتُ کَأْسٌ کُلٌ شَارِبُوْھَا
’’موت ایک پیالہ ہے جو ہر کسی نے ہی پینا ہے۔‘‘
نوحہ خوانی اور سوگ و ماتم:
موت شہید کی ہو یا عام مرگ،موت بہرحال موت ہی ہے جو پسماندگان اور عزیزو اقارب کیلئے صدمہ اور دُکھ کا باعث بنتی ہے،اور کون نہیں جانتا کہ یہ زندگی خوشی وغم اور شادی و مرگ سے عبارت ہے۔موت وحیات کا نظام کائنات کا ایک جزء ہے اور ہرذی رُوح کی موت کا وقت مقرر ہے جس سے کسی کو مفرّ نہیں،برگزیدگانِ الٰہ پیغمبر علیہم السلام ہوں،ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم یادیگر اولیاء اﷲ رحمہم اللہ ہوں،موت کا جام ہر کسی کیلئے مقرر ہے،دشمنانِ دین ہوں،اپنے آپ کو﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی﴾کہلوانے والے صاحبِ جبرُوت و سطوت ہوں،شاہ ہو ں یا گدا،امیر ہوں یا فقیر،موت بہرحال سب کا مقدر ہے،کیونکہ سورہ ٔآل عمران آیت:۱۸۵،سورۂ انبیاء آیت:۳۵،اور سورۂ عنکبوت،آیت:۵۷ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ﴾’’ہر جاندا رکو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘