کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 88
اُس نے شریعت کو مکمل نہ کیا۔جبکہ وہ آیت﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾میں شریعتِ محمدیہ کی تکمیل کا اعلان کرچکا ہے۔‘‘ گویا تعزیت کے نام پر یہ اجتماعات اللہ تعالیٰ،رسول اللہ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾اور اسلافِ امت پر الزام عائد کرنے کے مترادف ہیں۔ 2۔ فتاویٰ بزاریہ میں یومِ اوّل،تیجے اور ساتے کو مکروہ قرار دینے کے بعد میّت کے لیے قرآن خوانی اور ختم شریف کے متعلق لکھا ہے: (یُکْرَہُ اِتِّخَاذُ الدَّعْوَۃِ لِقِرَائَ ۃِِ الْقُرْاٰنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَآئِ وَالْفُقَرَآئِ لِلْخَتْمِ اَوْلِقِرَائَ ۃِ سُوْرَۃِ الْاَنْعَامِ اَوِالْاِخْلَاصِ) ’’قرآن خوانی کی دعوت کرنا،ختم شریف کے لییٔ،سورۂ انعام پڑھنے کے لیے اور سورۂ اخلاص کی تلاوت کی خاطر صلحاء وفقراء کو جمع کرنا مکروہ ہے۔‘‘ 3۔ برصغیر کو سب سے پہلے قرآن وسنّت کے علوم سے روشناس کرانے والے خاندان ولی اللّٰہی کے سربراہ وسرخیل حضرت امام شاہ ولی اللہ محدّث دہلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (ازبدعاتِ شنیعۂ مامردم اسراف است درماتمہا چہلم وششماہی وفاتحہ وسالینہ وایں ہمہ رادرعربِ اوّل وجودنہ بود)(وصیّت نامہ) ترجمہ:’’چہلم‘ششماہی‘فاتحہ اور سالانہ عرس وغیرہ رسوماتِ ماتم میں فضول خرچیاں ہمارے لوگوں کی بدترین بدعات میں سے ہیں۔قرونِ اولیٰ میں ان امور کا وجود تک نہ تھا۔‘‘ 4۔ شرح المنہاج میں بھی قُل،دسویں اور چہلم وغیرہ کو ممنوع اور بدعات قرار دیا گیا ہے۔اور صاحبِ تفسیرِ حقّانی الشیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ کے استاذ علی المتقی قرآن خوانی کے متعلق لکھتے ہیں: (اَلْاِجْتِمَاعُ لِلْقِرائَ ۃِ بِالْقُرْآنِ عَلَیٰ الْمَیِّتِ بِالتَّخْصِیْصِ عَلٰی الْمَقْبَرَۃِ