کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 87
ایام شرور ومصائب میں،یہ ایک بدترین بدعت ہے۔‘‘ سنت یہ ہے کہ مرنے والے کے اقرباء اسکے پسماندگان کیلئے کھانا تیار کریں۔[1] بہرحال میت کے پسماندگان سے ضیافت حاصل کرنا ممنوع ہے۔[2] بعض دیگر بدعات۔کتبِ فقۂ حنفیہ کی روشنی میں: قُل،تیجا،ساتا،(دسواں)،چہلم اور برسی منانا بدعت ہیں۔[3] یہاں بعض حنفی علماء کی آراء ملاحظہ فرمائیں،چنانچہ تلخیص السنن میں ہے: (اَلْاِ جْتِمَاعُ فِیْ یَوْمِ الثَّالِثِ خُصُوْصاً لَیْسَ فِیْہِ فَرِیْضَۃٌ وَلَا فِیْہِ وُجُوْبٌ وَلَافِیْہِ اِسْتِحْبَابٌ وَلَا فِیْہِ مَنْفَعَۃٌ وَلَا فِیْہِ مَصْلَحَۃٌ فِیْ الدِّیْنِ بَلْ فِیْہِ طَعْنٌ وَمَذَمَّۃٌ وَمَلَامَۃٌ عَلَیٰ السَّلَفِ حَیْثُ لَمْ یَنْتَبِھُوْالَہٗ،بَلْ عَلیٰ النَبِّیِّ(صلی اللّٰه علیہ وسلم)حَیْثُ تَرَکَ حُقُوْقَ الْمَیِّتِ بَلْ عَلٰی اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی حَیْثُ لَمْ یُکْمِلِ الشَّرِیْعَۃَ وَقَدْ قَالَ فِیْ تَکْمِیْلِ الشَّرِیْعَۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾۔الخ)(تلخیص السّنن) ’’تیسرے دن خاص طور پر اجتماع(قُل)فرض ہے نہ واجب،سنّت ہے نہ مستحب۔اس میں کوئی منفعت ہے نہ دینی مصلحت،بلکہ یہ طعن،مذمت اور ملامت ہے سلفِ صالحین پر کہ وہ اس کام سے ناواقف رہے،بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوقِ میّت ترک کردیئے اور خود اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پر بھی کہ
[1] ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ،مسنداحمد،دارقطنی،بیہقی،مستدرک حاکم،الام للشافعی،احکام الجنائز وبدعہا،ص؛۱۶۷،فتح القدیر شرح ہدایہ لابن الہمام۱؍۴۷۳ [2] تلبیسِ ابلیس لا بن الجوزی،ص:۳۴۱،فتح القدیر شرح ہدایہ ۱؍۴۷۳،المدخل ۳؍۲۷۶۔۲۷۵،اصلاح المساجد،ص:۱۸۱،احکام الجنائز وبدعہا،ص:۲۵۶ [3] شرح الطریقۃ المحمدیۃ للحازمی۳۲۲۴،المدخل ۲؍۱۱۴،۳؍۲۷۹۔۲۷۸