کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 81
کرنا جائز ہے چنانچہ مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن زید بن عمر و بن نفیل رضی اللہ عنہما مقام عقیق پر فوت ہوئے اور انہیں مدینہ منورہ میں لا کردفن کیا گیا۔[1] منتقیٰ الاخبارکی شرح نیل الاوطار میں امام شوکانی نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث میں میت کو ایک جگہ سے دوسرے مقام پر منتقل کرکے وہاں دفن کرنے کا جواز پایا جاتا ہے اور اصل جواز ہی ہے اور کسی دلیل کے بغیر ممانعت نہیں کی جا سکتی۔[2]تاہم بعض اہل علم نے کسی شدید ضرورت کے بغیرمیت کو دوسرے ملک یا علاقے میں لے جا کر دفن کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔[3] لحد یا شق؟ قبر میں لحد اور شق دونوں ثابت اور جائز ہیں لیکن لحد افضل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لحد ہی بنائی گئی تھی۔[4] اور یہ تب ہے جب زمین سخت ہو اور زمین کے نرم ہونے کی شکل میں شق احوط و بہتر ہے۔[5] بیوی کی تدفین میں شوہر کی شرکت: تدفین کے وقت شوہر کیلئے جائز ہے کہ وہ بیوی کو لحد و شق(قبر)میں اتارے جیسا کہ غسل ِ میت کے ضمن میں مذکور حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:
[1] مؤطا مع تنویر الحوالک ۱؍۱؍۲۳۲ دارلکتب بیروت [2] نیل الاوطار۲؍۴؍۱۱۲۔۱۱۴ [3] عون المعبودشرح ابوداؤد۸؍۴۴۷۔۴۴۸ [4] مسلم،نسائی،ابن ماجہ،مسند احمد بحوالہ الجنائز ۱۴۴۔۱۴۵والنیل ایضاً [5] النیل۲؍۴؍۸۰۔۷۹،الفتح الربانی۸؍۵۶۔۵۲،احکام الجنائز،ص:۱۴۵۔۱۴۴