کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 78
اوردوسرے شہداء ہیں۔[1] 1۔ نابالغ بچے اور سِقط(جو اتمامِ تخلیق سے پہلے ہی بطنِ مادر سے ساقط ہوجائے)کی نمازِ جنازہ کے مشروع ہونے کے دلائل پر مبنی احادیث صحیح مسلم،ابوداؤد،نسائی اور مسند احمد میں موجود ہیں۔[2] 2۔ شہید کی نمازِ جنازہ کی مشروعیت کے دلائل صحیح بخاری و مسلم،ابوداؤد،نسائی اور مسند احمد سمیت دیگر کتبِ حدیث میں مذکور ہیں۔[3] ان کے علاوہ بھی بعض لوگ ہیں مثلاً: 3۔ جو شخص حدوداﷲکے نفاذ کی وجہ سے قتل کیا گیا ہو اس کی نمازِ جنازہ بھی مشروع ہے جیسا کہ مسلم و ابوداؤد،ترمذی و نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ایک عورت صحابیہ کے رجم کا واقعہ ہے جس کی نمازِ جنازہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی۔[4] 4۔ فاسق و فاخر کی نمازِ جنازہ بھی مشروع ہے اور اس کے دلائل پر مبنی احادیث صحیح مسلم،سنن اربعہ اور مسند احمد میں مذکور ہیں۔[5]
[1] تفصیل کیلئے دیکھیے ابوداؤد والعون۸؍۴۱۳۔۴۰۸،الفتح الربانی۷؍۲۰۶۔۲۰۴ایضاً،۷؍۱۵۹ وما بعد وا۸ا ومابعد،ترمذی وتحفۃ الاحوذی ۴؍۳۰۔۲۶،بخاری وفتح الباری ۳؍۲۱۱۔۲۰۹،النیل ۲؍۴؍۴۲ وما بعد،احکام الجنائز وبدعہا،ص:۸۰ [2] دیکھیے الفتح الربانی ۷؍۲۰۶ وما بعد،احکام الجنائزوبدعہا،ص:۸۱۔۸۰،زادالمعاد ۱؍۵۱۳ومابعد،فتح الباری ۳؍۱۲۲۔۲۰۱مع حاشیہ لابن باز [3] تفصیل کیلئے دیکھیے بخاری مع الفتح الباری۳؍۲۱۱۔۲۰۹،نیل الاوطار ۲؍۴؍۴۲وما بعد،احکام الجنائز،ص:۸۳ [4] الفتح الربانی۷؍۲۱۵ وما بعد،النیل۲؍۴؍۴۷وما بعد،زادالعاد۱؍۵۱۷۔۵۱۵،احکام الجنائز،ص:۸۳ [5] الفتح الربانی۷؍۲۱۲ وما بعد،بخاری مع الفتح ۳؍۲۲۶ وما بعد،النیل ۲؍۴؍۴۶ ومابعد،احکام الجنائز،ص:۸۵۔۸۳