کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 77
شافعیہ میں سے ہی امام رویانی نے بھی امام خطابی کی رائے کو بنظر استحسان دیکھا ہے اور یہی امام ابوداؤد کا مذہب ہے کیونکہ انہوں نے اپنی سنن میں اس حدیثِ نجاشی پر یہی تبویب کی ہے۔[1] متاخرین علماء میں سے امام صالح المقبلی نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے جیسا کہ امام شوکانی نے ذکر کیا ہے۔[2] اور انہوں نے اس حدیث کے بعض طرق میں وارد ان کلمات سے دلیل لی ہے جو اسطرح ہیں: ((اِنَّ اَخَاکُمْ قَدْمَاتَ بِغَیْرِ اَرْضِکُمْ فَقُوْمُوْا فَصَلُّوْا عَلَیْہِ)) ’’تمہارا ایک بھائی تمہاری سرزمین سے باہر ایک جگہ(حبشہ میں)فوت ہوگیا ہے لہٰذا اٹھو اور اسکی نمازِ جنازہ پڑھو۔‘‘ اور علّامہ البانی نے اسکی سند کو بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔ ہر کسی پر نمازِ جنازہ غائبانہ کی عدمِ مشروعیت کی تائیداس بات سے بھی ہوتی ہے کہ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی وفات پر صحابہ وتابعین نے انکی نمازِ جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی تھی۔[3] مگر حافظ ابن حجر نے اس بات کی تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ نمازِ جنازہ غائبانہ کے بعض دیگر واقعات بھی ملتے ہیں۔[4] نماز جنازہ کا حکم: ہر مسلمان کی نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے لیکن دو قسم کے لوگوں کی نماز واجب تو نہیں البتہ پڑھ لینامشروع و مستحب ہے،ان میں سے پہلی قسم کے لوگ نابالغ بچے۔[5]
[1] باب فی الصلوٰۃ علی المسلم یموت فی بلادالشرک،ابوداؤد ۳؍۲۱۲ بتحقیق محی الدین عبدالحمید [2] نیل الاوطار ۲؍۴؍۴۳ [3] للتفصیل احکام الجنائز للالبانی،ص۹۲۔۹۳ [4] فتح الباری ۳؍۱۸۸۔۱۸۹ [5] تفصیل کیلئے دیکھیے ابوداؤد والعون۸؍۴۷۷۔۴۷۶،محلّٰی ابن حزم۳؍۵؍۱۸۵،الفتح الربانی۷؍۲۱۱۔۲۰۶،احکام الجنائز وبدعہا،ص:۸۰۔۷۹