کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 74
((فَتَمَنَّیْتُ أَنْ اَکُوْنَ أَنَا ذٰلِکَ الْمَیِّتَ))[1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ِ مبارک سے یہ دعاء سن کر میرے دل نے یہ تمنا کی کہ کاش اس میت کی جگہ آج میرا جنازہ ہوتا۔‘‘ جہری قراء ت والوں نے اس حدیثِ مذکور سے بھی دلیل لی ہے۔ قائلینِ سرّ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہم کی روایت میں جو بلند آواز سے جنازہ پڑھنا وارد ہوا ہے تو و ہ محض لوگوں کو نمازِ جنازہ کی تعلیم دینے کیلئے تھا جیسا کہ بخاری شریف اور دیگر کتبِ حدیث کے حوالہ سے انکے الفاظ ہیں: ((لِتَعْلَمُوْا أَنَّھَا سُنّۃٌ))[2] ’’میں نے جہراََ نمازِ جنازہ اسلئے پڑھی ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ جنازہ میں یہ(قراء ت ِ فاتحہ)سنت ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ تعلیمِ جنازہ کی غرض سے امام کا جہراََنمازِ جنازہ پڑھنا بھی صحیح ہے اور آج کل اُس وقت کی نسبت حالات بہت مختلف ہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت اہلِ علم تھی اور آج اسکے بالکل برعکس معاملہ ہے لہٰذا جہراََ پڑھنا عین اس مصلحت کے مطابق ہے جسکا بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ذکر فرمایا ہے۔ 3۔ ویسے ان ہر دو طریقوں میں سے کسی پر اصرار بھی درست نہیں اور نہ ہی کسی کا انکار مناسب بلکہ دونوں طرح ہی جائز ہے،اور بعض شافعیہ نے ان ہر دو مسلکوں کے درمیان والی راہ اپنائی ہے،ان کا کہنا ہے رات کو جنازہ پڑھیں تو جہراََ اور دن ہو تو سرّا۔[3] لیکن یہ تفریق محض نمازِ پنجگانہ پر قیاس ہے،اسکی کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔
[1] قدمرّتخریجہٗ ومسلم،۲؍۶۶۳ بتحقیق محمد فوٗاد عبدالباقی [2] قدسبق تخریجہٗ [3] الفتح الربانی۷؍۲۴۲