کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 73
ہوئے بغیر ایسا نہیں کرتے ہونگے وہ رفع یدین کرسکتا ہے۔[1] قراء ت سرّی یا جہری؟: نمازِ جنازہ میں قراء ت کے سرّی یا جہری ہونے میں اہلِ علم کے تین قول ہیں: 1۔ پہلایہ کہ نمازِ جنازہ کا سرّاََ پڑھنا مستحب ہے اکثر آئمہ و فقہا کا یہی مسلک ہے اور ان سب کا استدلال نسائی،محلّٰی ابن حزم اور معانی الآثار طحاوی میں مذکور ایک صحیح حدیث سے ہے جس میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((اَلسُّنَّۃُ فِی الصَّلَوٰۃِ عَلَیٰ الْجَنَازَۃِ اَنْ یَّقْرَأَ فِی التَّکْبِیْرَۃِ الْاُوْلٰی بِاُمِّ الْقُرْآنِ مَخَافَتَۃً ثُمَّ یُکَبِّرُثَلَاثاً وَالتَّسْلِیْمُ عِنْدَ الْآخِرَۃِ))[2] ’’ سنت یہ ہے کہ جنازہ کی پہلی تکبیر کے بعد خاموشی سے سورۂ فاتحہ پڑھی جائے۔‘‘ 2۔ بعض آئمہ و فقہاء اور علمائے حدیث کے نزدیک سرّاََ اور جہراََ دونوں طرح ہی یکساں ہے،اُن کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازہ کی بعض دعائیں روایت کی ہیں،انکا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہراََ یہ دعائیں پڑھی تھیں تبھی تو ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دعاؤں کو سنا اور یاد رکھا پھر بیان کیا۔[3] صحیح مسلم [4]،نسائی،ابن ماجہ،بیہقی اور مسند احمد میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی نمازِ جنازہ پڑھی،اور اسمیں میت کیلئے((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہٗ))والی دُعا ء فرمائی:
[1] احکام الجنائز وبدعہا،ص:۱۱۶۔۱۱۵ [2] نسائی۱؍۲۸۱ محلّٰی۳؍۵؍۱۲۹ [3] المحلّٰی ۳؍۵؍۱۲۹،المجموع شرح المہذّب للنووی۵؍۱۸۹ طبع مصر وصحّحہٗ،احکام الجنائز وبدعہا،ص:۱۱۲۔۱۱۱،ورجح الالبانی الاسراربھا [4] صحیح مسلم۲؍۶۶۳،نیل الاوطار ۲؍۴؍۶۵۔۶۱،المغنی۲؍۴۰۵۔۴۰۴ طبع مصر