کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 72
وَضَعَ الْیُمْنٰی عَلَیٰ الْیُسْرَیٰ))[1] ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پر تکبیر کہی اور پہلی تکبیر میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور(پھر)دائیں کو بائیں پر باندھ لیا۔‘‘ اسی طرح دارقطنی کی ایک دوسری حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جوکہ پہلی حدیث کی شاہد ہے اس میں ہے: ((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ عَلَیٰ الْجَنَازَۃِ فِیْ اَوَّلِ َتکْبِیْرَۃٍ،ثُمَّ لَا یَعُوْدُ))[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے پھر دوبارہ(دوسری تکبیروں میں)نہیں کرتے تھے۔‘‘ ان ا حادیث سے معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ میں پہلی تکبیر کے سوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں تاہم امام ترمذی فرماتے ہیں: ’’اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرنے کے قائل تھے۔امام ابن المبارک،احمد،شافعی اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے جبکہ امام سفیان ثوری مالکیہ اور احناف پہلی تکبیر کے بعد رفع یدین نہ کرنے کے قائل ہیں۔‘‘ علاّمہ ابن حزم،امام شوکانی،شیخ البانی اور بعض دیگر اہلِ تحقیق و علمائے حدیث کا مسلک بھی یہی ہے کہ تکبیر ِ اولیٰ کے بعد رفع یدین نہ کی جائے۔[3] باقی تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کے اثبات میں جو ایک مرفوع روایت ہے وہ توضعیف ہے۔صرف سنن کبریٰ بیہقی(۴؍۴۴)میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً مگر صحیح سند سے ثابت ہے کہ وہ نماز ِ جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا کرتے تھے اور جس کا خیال ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ معلومات حاصل
[1] ترمذی۲؍۱۶۵،دارقطنی۱۹۲،بیہقی۲۷۴،احکام الجنائز،ص۱۱۵،۱۱۶ [2] دارقطنی ۱۹۲،واحکام الجنائز،ص۱۱۶ [3] احکام الجنائز وبدعہا،ص:۱۱۶۔۱۱۵