کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 7
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مسائل و احکامِ نمازِجنازہ
ذکرِموت،فکرِ آخرت:
ابتدائے آفرینش اور تخلیق ِ آدم علیہ السلام سے لیکر موت و حیات کا یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا اور جو بھی جاندار اس دنیا میں آیا ہے اُسے اپنی حیاتِ مستعار مکمل کرکے ایک نہ ایک دن یہاں سے رخصت ہونا ہی ہوتا ہے،موت کا یہ جام اپنے کئے ہوئے عملوں کے اعتبار سے چاہے کسی کے لیے تلخ ہو یا شیریں بہرحال ہر کسی کو پینا ہی ہوتا ہے اور موت وہ اٹل حقیقت ہے جس سے کسی نیک و بد،شاہ و گدا اور غنی و فقیرکو مفرّنہیں،اﷲتعالیٰ نے اپنی کتابِ کریم کے مختلف مقامات پر اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے،چنانچہ سورۂ آلِ عمران،آیت:۱۸۵،سورۂ انبیاء،آیت:۳۵ اور سورہ ٔ عنکبوت،آیت:۵۷ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ﴾
’’ہر جاندا رکو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘
جب ہماری زندگی کی بس صرف یہی حقیقت ہے تو آج اِسکا،کل اُسکا اورپھر ایک دن اپنا بھی جنازہ اُٹھے گا اور اسکا اندازہ و مشاہدہ ہم آئے دن اپنی آنکھوں سے کرتے ہی رہتے ہیں مرنے والے کیلئے اسکے اعزّاء ا و اقارب کی طرف سے سب سے بڑا تحفہ اسکے جنازے میں شریک ہونا اور اسکے لیے دعائے مغفرت کرنا ہوتا ہے۔اب ذرہ وہ لوگ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں جنہیں دُعاء جنازہ ہی نہیں آتی،وہ اپنے کسی عزیز کو الوداعی تحفہ کیا دیں گے؟ سوائے اسکے کہ امام کے پیچھے ستون بن کر کھڑے ہوجائیں۔وہ ٹسوے تو بہاتے ہیں اورممکن ہے کہ کسی دنیوی مصلحت کے منقطع ہوجانے یا کسی خاص قرابت کی وجہ سے اسکی موت پر دُکھ بھی پہنچاہو اور آنکھوں سے ٹپکنے والا پانی واقعی اشک ہائے غم ہو لیکن ذرا اس نقطے پر کچھ توغور کیجیئے کہ