کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 62
اس کے علاوہ خاص طور پر نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔چنانچہ صحیح بخاری شریف،ابوداؤد،ترمذی،نسائی،بیہقی اور مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت عبداﷲبن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک نمازِ جنازہ پڑھائی،انہوں نے اس میں سورہ ٔ فاتحہ(بلند آواز سے)پڑھی اور پھر(نماز کے بعد)فرمایا: ((لِتَعْلَمُوْا اَنَّھَا سُنَّۃٌ)) ’’(میں نے بلند آواز سے سورۂ فاتحہ اسلئے پڑھی ہے)تاکہ تم جان لو کہ اسکا پڑھناسنت(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ)ہے۔‘‘[1] امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں فضالہ بن امیہ رحمہ اللہ سے روایت بیان کی ہے کہ جس شخص نے حضرت صدیق وفاروق رضی اللہ عنہما کی نمازِ جنازہ پڑھائی اس نے سورۂ فاتحہ پڑھی تھی۔[2] المسند والاُم للشافعی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((اِنَّ السُّنَّۃَ فِی الصَّلَوٰۃ عَلَیٰ الْجَنَازَۃِ اَنْ یُّکَبِّرُ الْاِمَامُ ثُمَّ یَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ))[3] ’’نمازِ جنازہ میں سنّت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے اور پھر اس میں سورۂ فاتحہ پڑھے۔‘‘ امام اسحاق بن راہویہ،ابن تیمیہ اور بعض دیگر محدّثین نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ کے قائل ہیں لیکن اسے فرض نہیں سنت سمجھتے ہیں۔[4] نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بکثرت دلائل کتبِ حدیث وفقہ میں مذکورہیں۔[5]
[1] بخاری مع الفتح ۳؍۲۰۳،ارواء الغلیل ۳؍۱۷۸،نیل الاوطار۲؍۴؍۶۰ واحکام الجنائز،ص:۱۱۹ [2] المنتقی مع نیل الاوطار۲؍۴؍۶۱ [3] الارواء الغلیل ۳؍۱۸۰۔۱۸۱وصححہٗ الالبانی [4] نیل الاوطار۲؍۴؍۶۱ ورجحہٗ صاحب عون المعبود ۴؍۵۰۹،زادالمعاد ۱؍۵۰۵ [5] دیکھیے شرح معانی الآثار طحاوی ۱؍۳۳۵ باب التکبیر علیٰ الجنائز،عمدۃ القاری للعینی ۷؍۱۴۷،۱۴۱،۱۴۰،امام الکلام مولانا عبدالحیٔ لکھنوی،ص۲۳۳،التعلیق الممجد علیٰ مؤطا امام محمد لہٗ،ص:۱۳۱،احکام الجنائز للالبانی،ص:۱۱۹تا۱۲۱