کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 58
تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین آدمیوں کی ایک صف بنائی،دو کی دوسری اور دو کی تیسری صف بنائی۔‘‘ عام آئمہ و فقہاء کا یہی مسلک ہے لیکن امام احمد اورامام بخاری کا رجحان اس طرف ہے کہ اگر نمازی کم ہوں تو صرف دو صفیں بھی بنائی جا سکتی ہیں۔[1] جب نمازی کثیر تعداد میں ہوں تو پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ صفیں طاق ہی رہیں بلکہ جتنی بھی بن جائیں جائز ہے اگرچہ طاق کا اپنا ایک مقام ہے لیکن محض اس مقام کے لیے جنازہ سامنے رکھ کر صفیں طاق کرنے اور لوگوں میں شور پیدا کرنے کا فعل مناسب نہیں ہے۔ شرکاء جماعت کی تعداد و صف بندی: جنازہ میں جتنے زیادہ لوگ شریک ہوں گے اتنا ہی بہتر ہے البتہ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اگر جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد صرف تین ہو اور ان میں بھی ایک عورت ہو تو ایسا نہیں ہوگا کہ مرد امام کے دائیں پہلو میں کھڑا ہوجائے اور عورت پیچھے جیسا کہ عام نمازوں کی جماعت کا طریقہ ہے بلکہ مقتدی مردایک بھی پیچھے ہی کھڑا ہوگا چنانچہ مستدرک حاکم(۱؍۳۶۵)و بیہقی(۴؍۳۰،۳۱)میں ایک حدیث ہے اور اسکی شاہد حدیث مسند احمد(۳؍۲۱۷)میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمیر بن ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ انکے گھر میں یوں پڑھائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے امامت کروارہے تھے،حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے اکیلے صف میں کھڑے ہوگئے اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھیں۔[2] امام کہاں کھڑا ہو؟ نمازِ جنازہ کیلئے تمام آئمہ و فقہاء کے نزدیک بالاتفاق میت کے کسی بھی حصہ کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھانا جائز ہے لیکن امام کا کس جگہ کھڑے ہونا افضل ہے اس بارے
[1] بخاری وفتح الباری ۳؍۱۸۶،المغنی ۲؍۴۱۰ طبع مصر،الفتح الربانی ۷؍۲۰۳۔۲۰۴ [2] حوالہ جاتِ مذکورہ متن نیز دیکھیے احکام الجنائز ۹۸،۱۰۰