کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 54
سینکڑوں علمائے احناف کے مرتب کردہ فتاویٰ عالمگیری(فتاویٰ ہندیہ)میں بھی شرح امام طحاوی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جنازے کے ساتھ چلنے والے خاموشی اختیار کریں ان کا اونچی آواز سے قرآن پڑھنا یا ذکر کرنا مکروہ ہے۔[1] ایسے میں دنیاوی باتیں کرنا تو بالاولیٰ منع ہے اور یہ جو آجکل جنازے کے ساتھ ساتھ بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھا جاتا ہے،اسکی حقیقت واضح ہوگئی کہ یہ دراصل عیسائیوں کی نقل ہے کیونکہ ان کے یہاں بلند آواز سے انجیل کی تلاوت اور دوسرے اذکار کئے جاتے ہیں۔[2] ہمارے پاک و ہند میں یہ رسم ہندؤوں سے ماخوذ ہے کیونکہ وہ میت کے ساتھ ساتھ ’’رام نام ست ہے‘‘ کا ورد کرتے جاتے ہیں وہی رواج ’’کلمۂ شہادت ‘‘ کی شکل میں ہمارے یہاں بھی در آیا ہے۔[3] عورتوں کیلئے حکم: عورتوں کا جنازے کے ساتھ چلنا صحیح بخاری و مسلم کی ایک حدیث کی رو سے منع ہے۔تاہم یہ نہی تحریمی[4]نہیں بلکہ تنزیہی ہے جیسا کہ مشارالیہ حدیث میں حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے۔ جنازہ کا حکم و طریقہ: نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے اور اسکے فرض ِکفایہ ہونے پر امام ابن ہمام نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں اجماع ذکر کیا ہے۔[5] جبکہ بعض مالکی علماء نے اسے سنّت قرار دیا ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے۔[6]
[1] فتاویٰ ہندیہ۱؍۱۶۲،الفتح الربانی۸؍۲۳ [2] احکام الجنائز وبدعہا للالبانی،ص:۷۱ [3] جنازے کے مسائل مولانا فضل الرحمن،ص:۵۲ طبع ثانی دارالدعوۃ،السلفیہ لاہور [4] الفتح الربانی ۸؍۲۶۔۲۴۔۲۱ [5] فتح القدیر۱؍۴۵۵ [6] الفتح الربانی ۷؍۲۰۱