کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 50
یہ تو جانتا ہی نہیں کہ کس کو موت کہاں آئے گی جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ﴾ ’’اور کوئی نہیں جانتا کہ اسے موت کہاں آئے گی۔‘‘ اور اگر ایسا کرنے سے کسی کا مقصود موت کیلئے تیاری کرنا ہوتو یہ عملِ صالح سے ہوتی ہے نہ کہ قبر کھود لینے سے۔[1] اگر یہ کام مستحب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور کرتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء راشدین اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کرتے اور جب ان سب نے نہیں کیا تو اس میں خیر واستحباب کہاں سے آئے گا؟ اب ان لوگوں کے عمل کی معلوم نہیں کیا توجیہہ ہے جو اپنے ہاتھوں ہی اپنی قبر کھود لیتے اور اسے بڑا معرکہ باور کرواتے پھرتے ہیں۔ مُحرم کا کفن: احرام کی حالت میں وفات پانے والے کو صرف احرام کی دو چادروں میں ہی کفن دیا جائے گا جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث ابھی قریب ہی گزری ہے۔ شہید کا کفن: شہید جن خون آلود کپڑوں میں شہادت پائے اُسے انہی کپڑوں سمیت دفن کیا جانا چاہیئے کیونکہ نسائی و مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدا ئِ اُحد رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا تھا: ((زَمِّلُوْھُمْ فِیْ ثِیَابِھِمْ))[2] ’’انہیں ان کے کپڑوں میں ہی لپیٹ دو۔‘‘ جبکہ ابوداؤ،ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے:
[1] بحوالہ احکام الجنائز للالبانی،ص ۱۶۰۔۱۶۱ [2] بحوالہ احکام الجنائزللالبانی،ص:۶۰،نیل الاوطار ۲؍۴؍۴۰