کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 43
جائے غسل میں خوشبو کا انتظام کرلیا جائے تاکہ میت کے پیٹ سے کچھ خارج ہونے کی شکل میں بد بو نہ پھیلے اور میّت کو کسی بلند جگہ یعنی تخت پر لٹا لیا جائے۔[1] میت کا لباس اتار کر صرف شرمگاہ پر کپڑا رہنے دیا جائے اور وہ جگہ جہاں غُسل کا اہتمام کیا گیا ہو وہ دوسرے لوگوں سے با پردہ ہو،شروع میں نرمی کے ساتھ میّت کے پیٹ کو دبایا جائے تاکہ اگر کوئی فُضلہ پہلے ہی نکل جائے تو اچھا ہے،میّت عورت کی ہو تو غسل دینے والی اسکے کوائف کے مطابق جیسے مناسب سمجھے کرلے۔نہلانے والا اپنے ہاتھ پر کپڑے کی تھیلی چڑھا کر میّت کو اچھی طرح استنجاء کرائے اور پھر ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق دائیں اعضاء کی وضو ء کی جگہوں سے غسل دینے کا آغاز کرے۔پہلے وضوء کرائے لیکن کلی کیلئے مُنہ میں اورناک میں پانی نہ ڈالے تاکہ یہ پانی میّت کے پیٹ میں اتر کر خرابی کا باعث نہ بنے لہٰذا کپڑے یا روئی کو گیلا کرکے پہلے دانتوں کو اور پھر ناک کو صاف کرے۔وضوء کروانے کے بعد پہلے بائیں پہلو پر لٹا کر اسکے دائیں پہلو پر پانی بہائے اور سَر سے پاؤں تک صابن لگا کر صفائی کرے پھر دائیں پہلو پر لٹا کر بائیں پہلو کی صفائی کرے اور بالوں کو اچھی طرح دھویا جائے اور خوشبو لگائی جائے یہ ایک مرتبہ غسل ہوگیا۔اسی طرح تین،پانچ یا سات مرتبہ نہلایا جائے اور عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا کر پیچھے ڈال دی جائیں پھر صاف کپڑے سے جسم کو پونچھ دیا جائے،آخر میں کافور یا کوئی بھی اچھی سی خوشبو لگا دی جائے اور یہ اعضائے سجدہ پر بطورِ خاص لگائی جائے ویسے اگر سارے جسم پر بھی کافور لگا دیا جائے تو اچھا رہتا ہے۔عام خوشبو کی نسبت کافور کا یہ خاصہ ہے کہ ایک تو یہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور میت کو جلد خراب ہونے سے بچاتا ہے،دوسرے یہ ایسی خوشبو ہے کہ کیڑے مکوڑے میّت کے قریب جلد ی نہیں آتے،کافور لگ جانے کے بعد میت کفنانے کیلئے تیار ہوجاتی ہے اور علاّمہ ابن حزم کے سوا جمہور علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
[1] فقہ السنہ۱؍۵۱۵