کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 38
ہے کہ جس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہیں کہ ’’میں تمہیں غسل دیتا۔‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ میں تمہارے غسل کا انتظام کرتا،اور جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دینے کا ذکر ہے،وہ اُسے صحیح نہیں مانتے کیونکہ دوسری روایت میں حضرت اسماء بنت ِ عمیس رضی اللہ عنہا کا غسل دینا ذکر ہوا ہے۔اس سے مستدرک حاکم وبیہقی کی اس روایت کی طرف اشارہ مقصود ہے جس میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو میں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا۔‘‘ اِس روایت سے معلوم ہوا کہ اکیلی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ہی نے غسل نہیں دیا بلکہ ان کے بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔[1] علمائے احناف کا کہنا ہے کہ اگر اس واقعہ کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی اسے اس لئے دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کے اِس فعل پر تنقید کی تھی حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہنا پڑا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ’’ فاطمہ رضی اللہ عنہما دنیا میں بھی تمہاری بیوی ہے اور آخرت میں بھی‘‘،ان کا یہ کہنا گویا اِس بات کی دلیل ہے کہ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں جانا پہچانا طریقہ یہی تھا کہ شوہر اپنی بیوی کو غسل نہیں دے سکتا۔[2] جبکہ دوسرے آئمہ حتی کہ خود بعض کبار علمائے احناف مثلاََ امام طحاوی اور علاّمہ عینی اس روایت کو صحیح نہیں مانتے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دنیا و آخرت دوجہان میں ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں یعنی یہ کہ انتقال کے بعد بھی انکا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح باقی رہا،اس روایت کے غلط و غیر صحیح ہونے کی ٹھوس دلیل یہ دی گئی ہے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد(انہی کی وصیّت پر عمل کرتے ہوئے)انکی سگی بھانجی حضرت اُمامہ بنت زینب رضی اللہ عنہما کے
[1] دیکھیے تخریج ۴۸ [2] بذل المجہود ۱۴؍۱۰۹۔۱۱۰ وفیہ ام ایمن بدل اسماء