کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 35
4۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی نے ہی غسل دیا تھا۔[1] معروف فقیہہ علاّمہ ابن قدامہ نے ابن المنذر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ بیوی کے اپنے شوہر کو غسل دینے کے جواز پر تمام(صحابہ و تابعین،آئمہ وفقہاء اور جمیع اہلِ علم کا)اجماع ہے،اور امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[2] شوہر کے اپنی بیوی کو غسل دینے کے دلائلِ جواز: اِسی طرح امام مالک،شافعی،مشہور روایت میں امام احمد،عام محدّثین اور جمہوراہلِ علم کے نزدیک شوہر بھی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔ان سب کا 1۔ستدلال متعدد احادیث سے ہے مثلاً: 1۔ ابن ماجہ(باب ماجاء فی غسل الرجل لمرأتہٖ وغسل المرأۃ زوجہا)،مسند احمد،ابن حبان،دارقطنی،بیہقی اور سنن دارمی میں ایک حدیث ہے جسے صاحب منتقیٰ الاخبار نے باب ماجاء فی غسل احدالزوجین للآخر میں ذکر کیا ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: ((مَا ضَرَّکِ لَوْ مِتِّ قَبْلِیْ فَغَسَّلْتُکِ وَکَفَّنْتُکِ ثُمَّ صَلَّیْتُ عَلَیْکِ وَدَفَنْتُکِ))[3] ’’تم اگر مجھ سے پہلے وفات پا گئیں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ میں خود تمہیں غُسل دوں گا،کفن پہناؤں گا پھر تمہاری نمازِجنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفن کرونگا۔‘‘ امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کے
[1] الفتح الربانی ایضاََ المغنی لابن قدامہ۲؍۴۳۵ طبع مصر [2] المغنی ۲؍۴۳۵ طبع مصر [3] ابن ماجہ ۱؍۷۴۰،دارقطنی ۱؍۲؍۲۷۴،دارمی ۱؍۳۷،بیہقی۳؍۳۹۶،الفتح الربانی ۷؍۱۵۶،نیل الاوطار ۲؍۴؍۲۷،الارواء ۳؍۶۰۔۳۶۱ وصححہ ٗالالبانی،